آئینی ترمیم منظور نہ ہونے سے حکومت کو کیا نقصان ہوگا؟                       

ہفتہ 19 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ایک نئی آئینی عدالت کی تشکیل چاہتی ہیں۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف ایک نئی آئینی عدالت تشکیل دینے کے بجائے سپریم کورٹ کے 5 ججز پر مشتمل آئینی بینچ تشکل دینے کی بات کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ جس میں حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے حوالے سے راضی کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم کے لیے ہمارے ممبران کو لاپتا کیا گیا، رہنما جے یو آئی

مولانا فضل الرحمان ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے

دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے  کچھ شرائط بھی رکھی ہیں۔ جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کسی صورت آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔

واضح رہے کہ سنہ 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت معاہدے میں یہ درج تھا کہ ملک میں آئینی عدالت قائم ہونی چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم اگلے 2 روز میں متوقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے آئینی ترامیم کے خلاف 18 اکتوبر کو ملک بھر میں احتجاج کی کال بھی دی گئی۔

ناکامی کی صورت میں کیا ہوگا؟

سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نمبر پورے نہیں کر پائی اور آئینی ترمیم منظور نہ ہو پائی تو اس ساری صورتحال میں حکومت کو کیا نقصان ہوگا؟

یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم ، بلاول کی بیرسٹر گوہر کو عمران خان سے ملاقات کروانے کی یقین دہانی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے وی نیوز کو اس حوالے سے بتایا کہ اس میں 2 سے 3 پہلو اہم ہیں۔ یہ ساری بات مفروضوں پر چل رہی ہے۔

پہلا مفروضہ

پہلا مفروضہ تو یہ ہے کہ نئی عدلیہ کی قیادت سے یہ خدشہ ہے کہ وہ انتخابات 2024 کے حوالے سے کوئی ایسا غیر متوقع فیصلہ نہ آ جائے جس سے یہ پورا نظام خطرے میں پڑ جائے۔

دوسری بات

دوسری بات یہ کہ جیسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے۔ نئے ججز اور چیف جسٹس کے حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حکومت کو مشکل وقت دیں گے یا نہیں۔ ان کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں مبینہ طور پر یہ خدشات موجود ہیں کہ ان کے آنے سے حکومت کو مشکل ہوگی۔

تیسرا پہلو

تیسرا پہلو کے مطابق چونکہ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے کیسز کے حوالے سے جس طرح کے نتائج حکومت یا ریاست عدلیہ سے چاہتی ہے۔ وہ ان کو نہیں مل رہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ اس میں بہت سے ججز رکاوٹ ہیں۔ اس کے حوالے سے بھی حکومت کو کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ تمام مفروضات ہیں جو خدشات کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو آئینی حوالے سے جو مشکلات ہیں، جیسے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا، تو اگر آئینی عدالت نہیں بنتی تو پھر فل کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے مشکل ہو سکتی ہے۔

زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے

سیاسی ماہر امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ اگر آئینی ترمیم منظور نہیں ہوتی تو یہ حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ اکثریت سے اگر منظور ہو جاتی ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر اکثریت نہیں ہوگی تو کیسے آئینی ترمیم ہو سکے گی۔ زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔ اور حکومت کے لیے شرمندگی اسی وجہ سے ہوگی، کیونکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ان کے پاس نمبر پورے ہیں، اور آئینی ترمیم منظور ہو جائے گی۔

 آئینی بینچ پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہے

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ تک تو تمام جماعتوں کی اتفاق رائے شامل ہے۔ جو اٹھارویں ترمیم میں ہے کہ ججز کے بینچ کے حوالے سے۔ باقی اگر تمام جماعتیں اتفاق کریں گی تو ہی منظور ہوگی۔ اگر حکومت زبردستی کرنا چاہ رہی ہے تو ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

حکومت کومشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے

مجیب الرحمن شامی نے وی نیوز کو بتایا کہ اگر آئینی ترمیم منظور نہیں ہوتی تو حکومت کو وہی نقصان ہوگا۔ جو میدان جنگ میں ہارنے والے کمانڈر کو ہوتا ہے۔ کیونکہ حکومت نے اس کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حکومت اتنے عرصے سے اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ اور اس نے عدلیہ کے معاملات اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے محنت کی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت کو نفسیاتی، سیاسی اور عدالتی اعتبار سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp