حکومت بلوچستان کی جانب سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت نے پہلے مرحلے میں ضلع گوادر کے سمندری اور زمینی راستوں سے ایرانی تیل کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں رجسٹرڈ گاڑیوں کو ہفتے میں 4 روز تک تیل لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ایسے میں حکومتی فیصلے پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے باسیوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی دیکھیں:بلوچستان میں پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پیٹرول پمپ پر کام کرنے والے کامران خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد ہونی چاہیے، کیونکہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے جہاں قومی خزانے کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے، وہیں قانونی طور پر پیٹرول پمپ چلانے والے مالکان کو بھی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی پیٹرول کا مستقل استعمال گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ کے ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے، حکومت کی جانب سے ان نوجوانوں کے لیے نہ تو سرکاری سطح پر مواقع پیدا کیے جارہے ہیں اور نہ ہی صوبے میں کوئی انڈسٹری موجود ہے، ایسے میں ان نوجوانوں کا ذریعہ معاش ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔
یہ بھی دیکھیں:کوئٹہ کے کمبلوں کی خاص بات کیا ہے؟
اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ایرانی تیل کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دے گی تو یہ نوجوان کہاں جائیں گے؟ ایسے میں حکومت کو پہلے ان نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہییں اور بعد میں ایرانی تیل کا معاملہ دیکھنا چاہیے۔