مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے حکومت قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمبر گیم پوری کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کی صورت میں قومی اسمبلی میں 4 جبکہ سینیٹ میں 5 مزید ووٹ درکار ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکومت کو 224 ووٹ درکار ہیں۔ حکمران اتحاد کے ارکان کی تعداد 215 ہے۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ کے 111، پیپلز پارٹی 70، ایم کیو ایم پاکستان 22، مسلم لیگ ق 5، آئی پی پی کے ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔
مزید پڑھیں:وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی
ن لیگ کے عادل بازئی اور ق لیگ کے الیاس چوہدری کے ووٹ مشکوک ہیں جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح حکمران اتحاد کے پاس قومی اسمبلی میں 212 ووٹ ہیں اگر جمیعت علما اسلام کے 8 ووٹ بھی شامل کر لیے جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت کے لیے چار مزید ووٹ درکار ہوں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نمبر گیم پوری کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کے ساتھ معاملات طے کر لیے گئے ہیں۔
دوسری جانب سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔ حکمران اتحاد کو اس وقت 59 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 24، ن لیگ 19، ایم کیو ایم پاکستان 3، بلوچستان عوامی پارٹی 4، عوامی نیشنل پارٹی 3، ق لیگ 1، نیشنل پارٹی 1 جبکہ 4 آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ سینٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 5 مزید ووٹ درکار ہوں گے۔