26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کسی حد تک سامنے آ چکا ہے، گو کہ ابھی بھی یہ حتمی مسودہ نہیں اور قومی اسمبلی میں جب اسے پیش کیا جائے گا تو ممکنہ طور پر اس میں مزید تبدیلیاں آ سکتی ہیں، لیکن فی الحال جو مسودہ سامنے آیا ہے، اس کی رو سے یقیناً عدالتی نظام پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم: حکومت نے تمام جماعتوں کو آن بورڈ لیا ہے، وفاقی وزیرقانون کا سینیٹ میں خطاب
12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی
عدالتی نظام میں پارلیمان کے شراکت میں اضافہ ہوگا۔ اس مسودے کی رو سے سپریم کورٹ چیف جسٹس کی تقرری جو پہلے سینیئر موسٹ طریقہ کار کے تحت خودکار طریقے سے عمل میں آتی تھی اس کا طریقہ تبدیل کیا گیا ہے اور اب ایک 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی 3 سینیئر موسٹ ججز کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب بطور چیف جسٹس کرے گی، جس کی حتمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دیں گے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کا قیام
پارلیمانی کمیٹی میں حکومت و اپوزیشن کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ دستیاب مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیا ہے، جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ایک کمیشن 4 سینیئر ترین ججز، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل 2سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔
2 ارکان قومی اسمبلی اور 2ارکان سینیٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی 2 سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
آئینی بینچ کی تشکیل
مسودے میں آئینی بینچ کی تشکیل شامل ہے، جس کے لیے ججز کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کرے گا اور وہی آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ آئینی بینچوں میں صوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی اور ازخود اختیارات بھی آئینی بینچ ہی استعمال کر سکے گا۔
یہ بھی پڑھیں:26 ویں آئینی ترمیم میں کیا کچھ ہے؟
آئینی تشریح کے معاملات اسی بینچ کے پاس سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔اسی طرح سے ہائیکورٹ ججز کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام بھی اس ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے۔
ججوں کی کارکردگی کا ضرور جائزہ لیا جانا چاہیئے، یہ کام ہی نہیں کرتے، شہزاد شوکت ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک تو یہ ترمیم حتمی نہیں۔ ابھی تو قومی اسمبلی میں جائے گی اور دیکھیں گے کہ وہاں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ بہرحال ایک چیز باعث اطمینان ہے کہ سپریم کورٹ سے اوپر کوئی عدالت نہیں بنائی جا رہی، بلکہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بات کی ہمیں فکر ہے کہ سنیارٹی کے اصول پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔
کیا اس ترمیم سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی؟
اس سوال کے جواب میں شہزاد شوکت نے کہا کہ بالکل بھی نہیں کیونکہ جوڈیشل کمیشن میں تو ججز ہی ہوں گے، ان کے ہاتھ میں ججوں کی تعیناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے جو نظام لایا جا رہا ہے وہ خوش آئند ہے، یہ ججز کام ہی نہیں کرتے۔
آزاد عدلیہ کا تصور گہنا گیا ہے، اکرام چوہدری ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ترمیم کا مسودہ حتمی نہیں، ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ جب یہ سینیٹ سے قومی اسمبلی جائے گا تو اس میں کیا تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ تاہم موجودہ مسودے کی رو سے عدلیہ میں انتظامیہ یا ایگزیکٹو کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا ہے، جو یقیناً عدالتوں کی ورکنگ پر اثرانداز ہو گا۔
ترمیمی مسودے سے زیادہ اہم بات وہ طریقہ کار ہے جس سے یہ ترمیم لائی جا رہی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ ترمیم سے عدالتی نظام میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی۔ پہلے چیف جسٹس کی تعیناتی ایک ازخود یا آٹومیٹک طریقہ کار کے تحت ہو جایا کرتی تھی۔ اب خصوصی پارلیمانی کمیٹی 3 سینیئر موسٹ ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی، وزیر اعظم کی قوم کو مبارکباد
ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کی تعیناتی وزیراعظم کرتا تھا۔ اس کے بعد یہ تعیناتی خودکار طریقے سے ہونے لگی اور اب یہ اختیارات پارلیمانی کمیٹی کو تفویض کر دیے گئے ہیں تو ایک طرح سے ایگزیکٹو سے اختیارات مقننہ کے سپرد کر دئیے گئے ہیں۔
کیا موجودہ ترمیم سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ترمیم سے تو شاید متاثر نہ ہو لیکن جس طریقے سے ترمیم لائی جا رہی ہے اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت سینیٹ میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی نہیں کیونکہ سینیٹ کا انتخاب ہوا ہی نہیں۔ پھر جس طرح جلدبازی میں اور اراکین اسمبلی کو مجبور کر کے یہ ترمیم لائی جا رہی ہے اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی۔