پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ قرآن کے بعد اگر کسی کتاب کو مانتے ہیں تو وہ 1973 کا وفاقی، اسلامی اور جمہوری آئین پاکستان ہے۔ ملک میں کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری میں ’میرا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کا کردار ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا کردار تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، میرا مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جتنا رابطہ رہا تو یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اپنے والد کے بعد ملک میں اگر کسی کو بڑی سیاسی شخصیت مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔
انہوں نے قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اللہ جسے چاہیے عزت عطا کرتا ہے، جتنی ہم نے اپنے پارلیمان اور دستور اور آئین سازی کے عمل کی عزت رکھی ہے تو اس میں بھی کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک آئین سازی کی بات ہے تو اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ ہمارا وفاقی، اسلامی اور جمہوری 1973 کا آئین پاکستان ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے بات کی تھی، اس کے بعد 2006 میں تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی عدالت بنانے پر اتفاق کیا تھا اور آج ا مولانا فضل الرحمان کی تجویز پر آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینج بنائے جا رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جراتمندانہ فیصلے لینے پر آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو تاریخ میں یاد رکھا جا رہا ہے جسٹس دراب پٹیل کو کرسی کی فکر ہوتی تو پی سی او کا حلف لیتے اور چیف جسٹس بنتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
انہی جسٹس دراب پٹیل نے انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی اور آئینی عدالت کی تجویز دی، جس میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کیا ہم عدالتی تاریخ کو بھول گئے، یہ وہ عدلیہ ہے جس نے ایک وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کیا اوردوسرے کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے وزیر اعظم خود نکالے مگر قومی اسمبلی کے ارکان سے یہ اختیار لے لیا کہ وہ قائد ایوان پرعدم اعتماد کر سکیں، جب ہم جدوجہد کر کے آمر کو بھگاتے ہیں تو ان کو آئین و قانون یاد آتا ہے۔ یہ آمرانہ دور میں آئین کا تحفظ کرنے والوں کا کردار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان کی عدالتوں کا دُنیا بھر میں مذاق بن گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری نے پوری 18 ویں ترمیم کو اٹھا کر پھینکنے کی دھمکی دی، اس لیے بلیک میلنگ میں آ کر 19 ویں ترمیم کرنی پڑی۔ آج ’کالا سانپ‘ افتخار محمد چوہدری والی عدالت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو گی، ہم نے آئینی ترامیم میں جلد بازی نہیں کی۔