26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوچکی۔ اس کے بعد رواں ہفتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان آخری ہفتہ ہے۔ چیف جسٹس کا منصب کون سنبھالے گا اس کا فیصلہ اب پارلیمانی کمیٹی آنے والے چند دنوں میں کرے گی۔
قاضی فائز عیسیٰ کا دور بطور چیف جسٹس ایک مشکل ترین دور گردانا جائے گا۔ پچھلے چند سالوں سے ملک سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں جب اپنے سیاسی معاملات خود حل کرنے کے بجائے عدالتوں سے حل کروائیں گے تو اس سے عدالتیں بھی خود بخود سیاسی تنازعات کا شکار ہوجاتی ہیں اور یہی کچھ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بھی ہوا۔
ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے کہ جب ایک جماعت کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے تو دوسری جماعت عدلیہ کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے اس پر جانبداری کا الزام لگا دیتی ہے۔ یہی کچھ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ہوا ہے۔
بطور ایک جج اور چیف جسٹس ان کا ہر فیصلہ سیاسی مصلحت یا نظریہ ضرورت کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق ہی دیا گیا لیکن جس سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ آیا اس نے پراپیگنڈا کے ذریعے ان کو متنازعہ بنانے کی بھرپور مہم چلائی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنا ہر سیاسی معاملہ عدالت میں لے جاکر سیاسی تنازعات پر عدالتی مہر لگوانے کی کوشش کی اور انہی کوششوں کے نتیجے میں عدالتیں سیاسی تنازعات کا شکار ہوگئیں۔
اس وقت کوئی جج ایسا نہیں جو ان سیاسی تنازعات اور پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوا ہو۔ جس نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا وہ بھی سیاسی جج قرار دیا گیا اور جس نے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی سیاسی جج قرار دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے اس لیے ایک جھوٹی اور منظم مہم کے ذریعے قاضی فائز عیسیٰ کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے سیاسی مصلحت کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دیے۔
ایک منصوبہ بندی کے ذریعے یہ پراپیگنڈا مہم چلائی گئی کہ قاضی فائز عیسیٰ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف اس لیے فیصلے دے رہے ہیں کیونکہ اس سے وہ حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اس کے عوض وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ بھی تھا کہ اس مہم میں صرف تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز ہی نہیں بلکہ اس میں کچھ صحافی بھی شامل تھے جنہوں نے دن رات ان کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی اور ان کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ قاضی فائز عیسیٰ نے کئی ماہ پہلے مئی کے مہینے میں ہی جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں باقی ججوں کی موجودگی میں حکومت کو بتادیا تھا کہ وہ کوئی ایکسٹینشن نہیں چاہتے۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود بھی ان کے خلاف پراپیگنڈا جاری رہا۔
اب ان کی ریٹائرمنٹ کے عین قریب ایک نیا پراپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے۔ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ فرد واحد کو ایکسٹینشن دینے کے لیے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ جب ایکسٹینشن والا معاملہ کلیئر ہوگیا تو پھر ایک نیا پراپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے کہ فرد واحد کو چیف جسٹس نہ بنانے کے لیے آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ یعنی ہر صورت جب یہ ٹھان لی جائے کہ تنقید اور پراپیگنڈا کرنا ہے تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔
حالانکہ ماضی میں ڈکٹیٹرز نے جب آئین کی دھجیاں اڑائیں، آئین کو معطل کیا اور ججز کو گھروں میں محصور کیا تو یہی عدالتیں تھی جنہوں نے ان آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دیا۔
سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق نے آئین میں تقریباً 94 مرتبہ تبدیلیاں یا ترامیم کیں اور اپنی خواہشات کے مطابق آئین کو ڈھالا لیکن مجال ہے عدالتوں نے کبھی راستہ روکا ہو یا آمر کی کسی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیا ہو۔ اسی طرح سابق آمر پرویز مشرف نے آئین میں تقریباً 37 مرتبہ تبدیلیاں کی لیکن کسی عدالت نے اسے غیر آئینی قرار نہیں دیا۔
عدالتوں کا سارا زور جمہوری حکومتوں پر چلتا ہے۔ یہی عدالتیں ڈکٹیٹروں کے ساتھ مل کر کسی منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے تختے پر چڑھاتی رہی، کسی منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ کر گھر بھیجتی رہیں لیکن کسی ڈکٹیٹر کو غیر آئینی کہہ کر کبھی گھر نہیں بھیجا۔
صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک ریفرینس دائر کیا۔ 5، 6 چیف جسٹس نے اپنے دور میں اس ریفرینس کو ٹیک اپ کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ یہ قاضی فائز عیسیٰ ہی تھے جنہوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اس ریفرنس کو سنا بلکہ اس پر فیصلہ بھی دیا۔
اسی طرح ان کے بے شمار فیصلے ہیں جو کسی سیاسی مصلحت کے بجائے صرف اور صرف آئین اور قانون کے مطابق تھے اور اسی وجہ سے ہی انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ لیکن جتنی بھی تنقید ہوجائے، ایک بات طے ہے کہ جب بھی غیرجانبدار تاریخ لکھی جائے گی قاضی فائز عیسیٰ کا نام اس میں سنہرے حروف میں درج ہوگا۔