26 ویں آئینی ترمیم میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے کراچی میں وکلا میں ملا جلا رجحان پایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز نے مختلف نامور وکلا سے بات چیت کی اور آئینی ترمیم پر ان کی رائے اور آئندہ کا لائحہ عمل جاننے کی کوشش کی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد کا کہنا ہے کہ جو ترامیم ہوئی ہیں اس کا پارلمنٹ پورا حق رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ ترمیم سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں تو ان کے لیے عدالتیں موجود ہیں جن سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور
یاسین آزاد کہتے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے آئی ہے۔ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ باہمی رضا مندی کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی لیگل ٹیم کو بٹھایا اور حکومت کے ساتھ اس ٹیم نے یہ طے کیا کہ جو مولانا فضل رحمان کی ترمیم کے حوالے سے تجاویز ہیں یہی ہم ترامیم کا حصہ بنا کر اس کی حمایت کریں گے، اب جب پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم اس مشاورت میں شامل ہوئی تو اس لیے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے یہ ترمیم ہوئی ہے۔
یاسین آزاد کا کہنا ہے کہ بعد میں عمران خان نے اپنی لیگل ٹیم سے اختلاف کرتے ہوئے اس ترمیم کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ان کا بائیکاٹ کرنا بنتا اس لیے نہیں ہے کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی مرضی سے آئین میں ترامیم ہوئی ہیں۔
ان کہنا تھا کہ ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ پاکستان سے سودی نظام ختم کردیا جائے گا یہ لیگل ترمیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 4 سال تک میں جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر رہا ہوں جس نے پارلیمنی کمیٹی کو بلکل زیرو کردیا تھا اور جب بھی جوڈیشل کمیشن ججز کی تعیناتی کرتا تھا اور وہ معماملہ پارلیمنٹ جاتا تھا وہاں سے جو تعیناتی ہوا کرتی تھی جوڈیشل کمیشن اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا تھا لیکن اب ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہوگا جس میں ججز کی تعیناتی کی جائے گی۔
مزید پڑھیے: آئینی ترمیم کے بعد نئے چیف جسٹس کا انتخاب کون کرے گا، طریقہ کار کیا ہوگا؟
یاسین آزاد کہتے ہیں کہ مجھے تنقید کی وجہ نظر نہیں آتی اور جہاں تک وکلا برادری کا تعلق ہے تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں اس سے اختلاف ہر جماعت کا حق ہے اگر کوئی آرٹیکل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو آپ اس کے لیے عدالت جا سکتے ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر ریحان عزیز ملک نے کہا کہ اب تک ہمارے سامنے مکمل مسودہ نہیں آیا اور اس سے قبل جو مسودے ہمیں دیے گئے تھے ان میں ترمیم کی گئی ہے لہٰذا مکمل مسودہ آجائے تو اس پر ہم لائحہ عمل طے کریں گے۔
ریحان عزیز ملک ان کا کہنا ہے کہ ججز کی تعیناتی کا جو پہلے طریقہ تھا وہ ایسا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اس میں نمائندگی ہوتی تھی لا منسٹر یا اٹارنی جنرل کی جبکہ صوبائی سطح پر صوبائی منسٹرز اور پاکستان بار کونسل یا صوبے کی کونسلز شامل ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ساری باڈی کو ری فارمولیٹ کردیا گیا ہے یا ری آرگنائز کردیا گیا ہے اور اب کمیٹی میں سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ترین ججز ہوں گے پھر اس میں وزرا، اٹارنی جنرل، 2 پارلیمنٹیرینز اور اپوزیشن کے ارکان ہوں گے اور ان میں ججز کی نمائندگی اب اقلیت میں ہوگی۔
مزید پڑھیں: حامد خان کا ملک گیر وکلا تحریک چلانے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ اس عمل کی حمایت ہم نے پہلے کی ہے اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو ہو رہا ہے جلد بازی میں ہو رہا ہے جو کہ غلط ہے تاہم ہم معاملات کا جائزہ لے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
کراچی بار کراچی بار کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔
کراچی بار نے آئینی ترمیم کی منظوری کو جمہوری دور کا سیاہ دن قرار دیا ہے۔ کراچی بار کا مؤقف کے کہ اس وقت کوئی بھی وجہ نہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نہ بنایا جائے۔
صدر کراچی بار عامر نواز وڑائچ نے کہا کہ ہم اس وقت صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم عوام اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ ادارے عدالتی نظام کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔