مخصوص نشستیں: ججز قانون سازی نہ کریں، چیف جسٹس کا تفصیلی اقلیتی فیصلہ جاری

منگل 22 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مخصوص نشستوں کے کیس میں 2 ججز کا تفصیلی اقلیتی فیصلہ جاری کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

یہ اقلیتی فیصلہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے آیا تھا جس کی تفصیل جاری کی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ بھی لکھا ہے۔

اقلیتی فیصلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اضافی نوٹ 14 صفحات پر مشتمل ہے۔

اپنے اضافی نوٹ میں قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ توقع ہے کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کر کے انہیں درست کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے۔

مزید پڑھیے: مخصوص نشستیں کیس: چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے جواب کیوں طلب کیا؟

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ بدقسمتی سے نظرثانی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکی کیوں کہ میرے ساتھی ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اس کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے نظرثانی مقرر نہ کرنے کا مؤقف اپنایا۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کے مطابق پاکستان کو چلائیں۔

13 ججز کے مختصر فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ فیصلے کی وضاحت کے لیے مجارٹی ججز کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کہتے ہیں کہ یہ ایک انوکھا طریقہ کار وضع کیا گیا جس کی عدالتی طریقہ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ 8 ججوں کی اکثریت نے خود کو 13 رکنی فل کورٹ سے جدا کر لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں صرف وہ اپنے چیمبرز میں بیٹھ کر سنیں گے۔ اس طرح سے انہوں نے خود سے ایک نیا قانون اختراع کیا کیونکہ اس عمل کی نہ تو آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی قانون۔

چیف جسٹس نے اضافی نوٹ میں تحریر کیا کہ 8 ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے جبکہ ان اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں۔

مخصوص نشستوں والے کیس کا فل بینچ

دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدمے کی شنوائی کے دوران کسی بھی فریق نے یہ طریقہ کار اختیار کرنے کے بارے میں ایسی کوئی تجویز نہیں دی اور اکثریتی مختصر اور تفصیلی فیصلے میں بھی اس عمل کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی گئی۔ حقیقت میں قانون سازی کرتے ہوئے اکثریتی ججوں نے اپنے ہی مؤقف کی نفی بھی کی۔ ان اکثریتی ججوں نے لکھا کہ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں صرف وہ سنیں گے۔ جبکہ سپریم کورٹ کا متفقہ قانون یہ ہے کہ نظر ثانی وہی بینچ سنتا ہے جس نے اصل درخواست سنی ہو۔ چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ 8 ججوں نے 13 ججوں سے الگ اپنی عدالت بنالی اور نہ صرف یہ کہ قانون کے خلاف درخواستیں دائر کرنے کی اجازت دی بلکہ آئین ہی کو بدل دیا۔

مزید پڑھیں: بغیر مانگے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش

چیف جسٹس نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اور اکثریتی ججز نے وضاحتی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی۔ کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ’بائنڈنگ‘ نہیں، فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ آئینِ پاکستان کی دفعات بہت واضح اور غیر مبہم ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آئین میں وہ مطالب و معانی تلاش نہ کیے جائیں جو اس میں موجود ہی نہیں۔

مخصوص نشستوں کا مقدمہ آرٹیکل 51 اور 106 سے متعلق تھا لیکن اکثریتی 8 ججوں کے فیصلے میں ان آرٹیکل پر سرسری غور کیا گیا۔ اکثریتی فیصلے کے پہلے 58 صفحات عام انتخابات کے خد و خال، سیاسی جماعتوں، آرٹیکل 17 اور 19 اور الیکشن ایکٹ کی بعض مخصوص دفعات سے متعلق ہیں۔

نوٹ میں کہا گیا کہ اکثریتی ججوں نے اپنے وضاحتی فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی ایک درخواست کا ذکر کیا ہے جس پر نہ تو پی ٹی آئی اور نہ ہی اس کے چیئرمین گوہر خان کے دستخط ہیں۔

مذکورہ درخواست پر اس عدالت کے ایک ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے دستخط تھے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ درخواست گزاروں کو اس معاملے میں عدالت کی معاونت کرنے کی اجازت دی جائے۔ 8 ججوں نے اپنے اکثریتی فیصلے میں 8 آرٹیکلز، 7 کتابوں کے 14 حوالے، غیر ملکی نظائر اور تقاریر کے حوالے دیے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس سب کا ہمارے آئین سے کیا تعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جسٹس منصور علی شاہ کے ججز کمیٹی کی تشکیل نو پر اعتراضات، اجلاس میں بیٹھنے سے بھی انکار

8 ججز نے چیف جسٹس سمیت دیگر بینچ کے ممبران کو آگاہ کیے بغیر وضاحت جاری کی۔ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر وضاحت ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی جبکہ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواستوں پر سماعت کہاں ہوئی کیوں کہ اکثریتی ججز میں سے متعدد دستیاب نہیں تھے تو چیمبر میں سماعت کیسے ہوئی۔ نوٹ میں کہا گیا کہ ججز کی عدم دستیابی کے باوجود وضاحتی فیصلہ جاری ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔

مخصوص نشستوں کے کیس میں فل کورٹ کیوں بنا؟

چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ مخصوص نشتوں کے مقدمے کی پہلی سماعت سب سے پہلے ایک 3 رکنی بینچ کے سامنے مقرر ہوئی جس پر پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو اسی روز معطل کرتے ہوئے سماعت کے لیے منظور کیا گیا۔ اسی 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کی لارجر بینچ میں سماعت کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم 3 رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بطور چیف جسٹس میں نے یہ تجویز دی کہ آئین میں مجوزہ ترمیم کی بات چل رہی ہے اس لیے اس مقدمے کی سماعت میں ان جج صاحبان کو شامل نہیں ہونا چاہیے جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم سے یا تو فائدہ اٹھائیں گے یا اس سے متاثر ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ (بائیں) اور جسٹس منیب اختر

نوٹ میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال ہونے کی صورت میں چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ 5 دیگر جج صاحبان بھی ممکنہ طور پر متاثر ہو سکتے تھے لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اس بات کی مخالفت کی تو میں نے کہا کہ پھر یہ مقدمہ فل کورٹ سنے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جنرل باجوہ کی توسیع والے معاملے میں قانون سازی کی، چیف جسٹس

چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے میں اپنے ایک سابقہ فیصلے سے انحراف کیا ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ان کے سامنے آیا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان، وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ بطور آرمی چیف برقرار رہیں۔ فروغ نسیم نے تو وفاقی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر جنرل باجوہ کی وکالت کی اور عابد زبیری نے ان کی معاونت کی اور 2 دن کے اندر مقدمے کا فیصلہ ہو گیا۔ درخواست نہ منظور ہوئی نہ مسترد بلکہ جو فریقین کو مطلوب تھا وہ دے دیا گیا۔

عدالت نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جو قانون سازی کے مترادف تھا

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کر دی جو کہ قانون سازی کے مترادف تھا۔ آئین افراد کی خواہشات کے تابع نہیں ہونا چاہیے اور جو ایسا کریں یا اس میں اعانت کریں ان کا مواخذہ کیا جانا چاہیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ

اقلیتی فیصلے میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے 17 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آر اوز اور الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو غیر قانونی طور پر آزاد ڈیکلئیر کیا اس لیے آراوز اور الیکشن کمیشن کی غلطی کی سزا 39 ارکان کو نہیں دی جا سکتی اور عدالت اس بات کا بالکل نوٹس لے سکتی ہے۔

اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تاہم باقی 41 آزاد ارکان کی حد تک ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے تھے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ مجھے اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں اس لیے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ ممبران اسمبلی 15 روز میں تحریک انصاف میں شامل ہوں۔ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمشن کی ذمے داری ہے اور جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو اسے الیکش سے قبل اپنی متعلقہ پارٹی کا ٹکٹ آر او کو  جمع کرانا ہوتا ہے اور جو پارٹی کا ٹکٹ یا ڈیکلریشن جمع نہیں کراتا وہ آزاد تصور ہوتا ہے۔

الیکشن کمشن میں آر او کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے

جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آر او الیکشن سے قبل تمام امیدوارں کے نام پارٹی کے انتخابی نشان کے ساتھ آویزاں کرتا ہے اور انتخابی نتائج بھی آر او کی جانب سے جاری ہونے کے بعد الیکشن کمشن اسے حتمی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو جاری کرنے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp