کرکٹ کی تاریخ میں محمد برادران کو یکتا مقام حاصل ہے۔اس خانوادے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے:
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ حنیف محمد اور مشتاق محمد پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔ دونوں کو وزڈن کرکٹر آف دی ایئر بھی قرار دیا گیا۔
1952 میں پاکستان نے انڈیا کے خلاف دہلی میں اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ کھیلا تو حنیف محمد اس تاریخی ٹیم میں شامل تھے۔ 1954 میں اوول ٹیسٹ میں پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کی تو حنیف محمد اور وزیر محمد ٹیم کا حصہ تھے۔ 1958 میں ویسٹ انڈیز میں برج ٹاؤن ٹیسٹ میں حنیف محمد نے ٹیم کو شکست سے بچانے کے لیے 337 رنز کی عظیم اننگز کھیلی۔ پورٹ آف سپین ٹیسٹ میں پاکستان نے کامیابی سمیٹی تو اس میں وزیر محمد نے شاندار 189 رنز بنائے تھے۔
وزیر محمد نے 1959 میں پاکستان کے لیے بیسواں اور آخری ٹیسٹ کھیلا۔ اسی سال مشتاق محمد، حنیف محمد کے ساتھ قومی ٹیم کے قافلے میں آن شامل ہوئے۔ 1969 میں حنیف محمد ٹیسٹ کرکٹ سے رخصت ہوئے تو مشتاق محمد کو صادق محمد کی صورت میں نیا ٹیم میٹ مل چکا تھا۔ 1976میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں دونوں بھائیوں نے سنچری بنائی۔ ان سے پہلے یہ اعزاز چیپل برادران کے پاس ہی تھا۔1977 میں مشتاق محمد کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ اپنے نام کیا تو اس ٹیم میں صادق محمد بھی شامل تھے۔1977 میں ویسٹ انڈیز کو پاکستان ٹیم نے پورٹ آف سپین میں ہرایا تو مشتاق محمد ( کپتان) اور صادق محمد اس ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
ہمارے ہاں کرکٹ ماہرین عام طور پر عبدالحفیظ کاردار کے بعد بڑے کپتانوں میں عمران خان کا نام لیتے ہیں لیکن ان دو عظیم کپتانوں کے بیچ مشتاق محمد کا نام ضرور آنا چاہیے جنہوں نے کپتان بننے کے بعد قومی ٹیم میں نئی روح پھونکی، اسے ٹیسٹ میچ جیتنے کی ڈگر پر ڈالا۔ ان کی کپتانی میں پاکستان نے نیوزی لینڈ میں ٹیسٹ سیریز جیتی۔ آسٹریلیا میں پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی۔ ویسٹ انڈیز کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ میچ میں چت کیا۔ نیوزی لینڈ کو ہرا کر بارہ سال بعد ہوم سیریز جیتی۔ انڈیا کو پہلی دفعہ ٹیسٹ سیریز ہرائی۔
پاکستان کے لیے چاروں بھائیوں نے مجموعی طور پر 173 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ 1952 سے 1978 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں صادق محمد کے ڈراپ ہونے سے پہلے تک محمد برادران میں سے کم از کم ایک بھائی ٹیسٹ میں پاکستان کی طرف سے میدان میں ضرور اترا تھا ۔26 سال بعد اس عظیم روایت کا خاتمہ ہوا جس کی بنا حنیف محمد نے ڈالی تھی۔
صادق محمد نے جنوری 1981 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹیسٹ کھیلا جس سے پاکستان ٹیم کے ساتھ محمد برادران کا تعلق اختتام پذیر ہوا۔
اب ہم آپ کو لیے چلتے ہیں صادق محمد کے پہلے ٹیسٹ کی طرف جسے آج 55 سال ہو گئے ہیں۔ اس ٹیسٹ کے ساتھ ایک تاریخ ساز بات وابستہ ہے اور ایک تلخ یاد بھی جُڑی ہے۔
یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں تیسرا موقع تھا جب تین بھائی ایک ٹیسٹ میں شریک ہوئے۔ حنیف محمد ،مشتاق محمد اور صادق محمد۔ تلخ پہلو یہ ہے کہ اسے حنیف محمد کا آخری ٹیسٹ بنا دیا گیا۔
ٹیسٹ کرکٹر بننے کی خوشی اپنی جگہ لیکن صادق محمد کو حنیف محمد جیسے عظیم بلے باز کے ساتھ اوپننگ کرنے کی ٹینشن بھی بہت تھی جس کی وجہ سے میچ سے پہلے وہ رات کو سو نہیں سکے تھے۔ وہ پہلے ٹیسٹ میں سرخرو ہوئے۔ پہلی اننگز میں 69 رنز بنائے جو میچ میں سب سے زیادہ انفرادی سکور ٹھہرا۔ دوسری اننگز میں وہ 37 کے سکور پر مشتاق محمد کی غلطی سے رن آؤٹ ہو گئے۔ پہلے ٹیسٹ میں کامیابی کی خوشی کا عرصہ مختصر تھا۔ اس بے نتیجہ ٹیسٹ میچ کے بعد حنیف محمد کو جبری ریٹائر کرنے کے منصوبے پر عمل ہوا جس کے پیچھے عبد الحفیظ کاردار کا ہاتھ تھا جو اس وقت سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین تھے۔
کاردار نے حنیف محمد کے بھائی اور سلیکٹر وزیر محمد کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا۔ ہر چند کہ وزیر ان کی سوچ سے متفق نہیں تھے۔
اس کے بعد کاردار نے صحافیوں کی ٹولی حنیف کے پاس یہ کہہ کر بھیجی کہ وہ کوئی اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ اس حرکت پر حنیف ہل کر رہ گئے اور صحافیوں سے کہا کہ انہیں کچھ نہیں کہنا ہے۔ اس کے بعد کاردار نے حنیف محمد سے جو کچھ کہا اس کی بابت انہوں نے اپنی کتاب ‘پلیئنگ فار پاکستان ‘میں لکھا ہے:
‘ ایک دن سب کو ریٹائر ہونا ہی ہوتا ہے۔میرے خیال میں تمھیں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دینا چاہیے۔ تمھارے چھوٹے بھائی ٹیم میں ہیں اور تم کو کچھ ان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔‘
حنیف محمد کے خیال میں یہ ایک طرح سے بالواسطہ دھمکی تھی کہ اگر وہ ریٹائر نہ ہوئے تو ان کے بھائیوں کا کرئیر متاثر ہو سکتا ہے۔ کاردار کے رویے نے انہیں اشک بار کردیا۔ حنیف محمد کے خیال میں وہ ابھی مزید کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے پہلے فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ بیٹنگ کی تھی۔
2015 میں حنیف محمد نے ایکسپریس اخبار کو انٹرویو میں بتایا:
‘کاردارکے رویے سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ مجھے قومی ٹیم میں لانے والے بھی وہی تھے اور اب نکال بھی وہی رہے تھے۔’
حنیف محمد نے ڈراپ ہونے کی خفت سے بچنے کے لیے کرکٹ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کا ٹیم کی کارکردگی پر برا اثر پڑا ۔ پاکستان دوسرا ٹیسٹ ہار گیا۔ تیسرا ڈرا ہو گیا۔ نیوزی لینڈ نے ٹیسٹ سٹیٹس ملنے کے تقریباً چالیس سال بعد پہلی دفعہ ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کر لی۔ عمر نعمان نے اپنی کتاب ‘ پرائیڈ اینڈ پیشن’ میں لکھا ہے کہ نیوزی لینڈ اس وقت کمزور ترین ٹیم تھی۔
پاکستان نے کمزور ٹیموں کو سیریز جیتنے کے لیے اپنی سرزمین بعد میں فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں بنگلا دیش کی ٹیسٹ سیریز میں کامیابی ہے۔
صادق محمد کی خوشی بھائی کے کرئیر کے افسوس ناک انجام نے غارت کر دی۔ زندگی نے بہرحال آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ چھوٹے بھائیوں کو بڑھتا چڑھتا دیکھ کر حنیف سرشار ہوتے۔ ان کی کامیابیوں پر فخر کرتے۔
صادق محمد کے ٹیسٹ کرکٹ میں قدم جمنے لگے لیکن حنیف محمد کا سایہ اتنا گہرا تھا کہ وہ ان کے بھائی کے طور پر ہی جانے جاتے۔ ادھر دوسرے بڑے بھائی مشتاق محمد کا سایہ بھی پھیل رہا تھا تو اب وہ حنیف محمد اور مشتاق محمد کے بھائی کی حیثیت سے متعارف کروائے جانے لگے۔ لیکن پھر وہ وقت بھی آگیا جب انہیں اپنا انفرادی رنگ جمانے کا موقع مل گیا۔
یہ 1973 کا سال تھا۔ آسٹریلیا میں پہلی ٹیسٹ سنچری اور نیوزی لینڈ میں 166 رنز کی اننگز کے بعد وہ بھائیوں کے سائے سے باہر نکل کر اپنے پہچان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ماجد خان اور ان کی صورت میں پاکستان کو قابلِ بھروسہ اوپننگ جوڑی مل گئی۔
ماجد خان نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ صادق محمد بہت عمدہ بیٹسمین تھے اور وہ فاسٹ باؤلنگ کو اس سہولت سے کھیلتے تھے جیسے سپنر کو کھیل رہے ہوں۔
دو بھائیوں کی ٹیم میں موجودگی سے تیسرے بھائی کے لیے ٹیم کے دروازے بند کر دینے کی ایک مثال تو آپ نے حنیف محمد کے ٹیم سے اخراج کے حوالے سے دیکھ لی، لیکن دو بھائیوں کے ٹیم میں ہونے پر تیسرے کے لیے قومی ٹیم کا در وا نہ ہونے کی مثال بھی اس خاندان سے مل جاتی ہے، وہ مثال رئیس محمد کی ہے جو پانچ بھائیوں میں سے واحد تھے جو ٹیسٹ کرکٹر نہ بن سکے جبکہ وہ ایک باصلاحیت آل راؤنڈر تھے۔
1955 میں ڈھاکہ ٹیسٹ سے پہلے وہ ٹیسٹ کرکٹر بننے کی منزل کے قریب آئے۔ انہیں ٹیسٹ سے ایک رات پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار نے یہ نوید جانفزا سنائی کہ کل انہیں ٹیسٹ کیپ مل جائے گی لیکن اگلے دن انہیں فائنل الیون میں جگہ نہ ملی اور وہ بارھویں کھلاڑی بنا دیے گئے۔ میرٹ کی پاسداری کی جاتی تو وہ قومی ٹیم کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتے تھے۔آسٹریلیا کے عظیم کھلاڑی کیتھ ملر جنہوں نے رئیس محمد کو فلڈ ریلیف میچ میں سنچری بناتے دیکھا تھا وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کہا اگر انہیں ایک ممکنہ ٹیسٹ کرکٹر کو چننا ہو تو ان کا انتخاب رئیس محمد ہوں گے۔
محمد برادران کے بعد اس خاندان میں بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کی روایت حنیف محمد کے بیٹے شعیب محمد نے کامیابی سے آگے بڑھائی جنہوں نے 45 ٹیسٹ اور 63 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔