تحریک انصاف حکومت کا اعتراف

ہفتہ 26 اکتوبر 2024
author image

کاشف الدین سید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بالآخر خیبر پختونخوا حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں 500 ارب روپے وفاق سے ملنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے جب بھی یہ دعویٰ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر رقم دی گئی تو صوبائی حکومت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ یا ترجمان نہ صرف اس کی تردید کرتا بلکہ ثبوت بھی طلب کرتا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کی جانب سے دی گئی وضاحت کو بھی جھٹلایا گیا۔ گزشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ سے دہشت گردی  کے خلاف جنگ کے لیے ایک فیصد مقررہ تناسب سے 400 ارب روپے سے زائد کے فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔ لیکن صوبائی حکومت کے ذمہ داران نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ خیبر پختونخوا میں 2013 سے تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

بھلا ہو پیپلز پارٹی کے متحرک رکن صوبائی اسمبلی احمد کریم کنڈی کا کہ انہوں نے صوبائی اسمبلی میں ایک سوال جمع کرایا جس کے جواب میں ایک تفصیلی رپورٹ ایوان میں پیش ہوئی۔ اسی رپورٹ میں صوبائی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں ایک فیصد اضافی فنڈ کے حساب سے تقریباً 500 ارب روپے وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے کا اعتراف کیا ہے۔ محکمہ خزانہ نے تفصیلی جواب میں بتایا ہے کہ 14 سالوں یعنی 2010 سے مارچ 2024 تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں 4 کھرب 99 ارب 41 کروڑ 90 لاکھ روپے صوبے کو وفاق سے جاری ہوئے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ملنے والی رقم مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا ایک فیصد حصہ بنتا ہے۔ اس دستاویز کے مطابق مالی سال 23-2022 میں صوبے کو سب سے زیادہ 70 ارب 66 کروڑ 40 لاکھ روپے موصول ہوئے۔ مالی سال 24-2023 کے مارچ تک 56 ارب 46 کروڑ سے زائد رقم ملی ہے۔

دہشت گردی نے خیبر پختونخوا کی صنعت وحرفت، سیاحت، تجارت بلکہ زراعت اور باغات کو بھی بری طرح تباہ کیا ہے جس کی بحالی بہت ضروری ہے۔ لیکن خیبر پختونخوا پولیس جو فرنٹ لائن فورس کی حیثیت سے میدان میں ہے، وہ اب بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اور فورسز ان فتنوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت اگر اس فنڈ سے پولیس کے محکمے کو مستحکم کرتی تو آج پولیس کے جوان احتجاج پر مجبور نہ ہوتے۔ لکی مروت میں حکومت کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، اس کی نوبت نہ آتی۔ پولیس کی جہاں نفری کم ہے، وہیں ان کے پاس دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اسلحہ بھی موجود نہیں۔

اس وقت صوبے میں پولیس اہکاروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 15 ہزار ہے۔ صوبے کے دارالحکومت پشاور میں 12 ہزار پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہے، جب کہ یہاں صرف 9 ہزار اہکار تعینات ہیں۔ ان میں سے بھی ایک قابلِ لحاظ تعداد سیاسی رہنماؤں، اعلیٰ حکام اور اہم مقامات کی حفاظت پر مامور ہے۔ پشاور کے مضافات میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دیگر اضلاع جہاں مسلح گروپوں کی کاروائیاں جاری ہیں، وہاں ہر ضلع میں کم از کم 100 ایلیٹ فورس اہلکاروں کی تعیناتی ضروری ہے لیکن وہاں عام پولیس کے جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2013 کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے حکومت کے ابتدائی دنوں میں پولیس کی صلاحیتیں اور نفری بڑھانے پر توجہ دی تھی۔ لیکن بعد میں ان کی ترجیحات بھی بدل گئیں۔ پشاورسمیت کئی اضلاع میں پولیس تھانے کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں۔ مقابلے کی صلاحیت کی حالت یہ ہے کہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے پاس امریکی ساختہ نائٹ ویژن بندوقیں ہیں اوروہ تھرمل ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ جب کہ پولیس اہلکاروں کے پاس وہی پرانی اے کے 47 بندوقیں ہیں جن سے وہ عسکریت پسندوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح پولیس کے پاس بکتر بند گاڑیاں بھی نہیں۔

پشاور سمیت کسی بھی شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں ہیں۔ پرویز خٹک دور کا سیف سٹی پراجیکٹ تاحال فائلوں میں دبا ہوا ہے۔ کچھ بڑے شہروں میں پولیس نے مقامی طور پر کیمرے نصب کر دیے ہیں۔ پشاور شہر میں اس وقت 100 کیمرے حساس مقامات پر نصب ہیں۔ جن کے لیے مقامی طور پر پولیس کی جانب سے نگرانی کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ صوبے کی پولیس فورس کی حالت زار ہے۔

صوبے میں انسداد دہشت گردی کا ادارہ ( سی ٹی ڈی) بھی بس نام کا ایک ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں جس خطیر رقم کی وصولی ہوئی ہے اگر اس کا درست اور جائز استعمال کیا جاتا تو آج سی ٹی ڈی سے لے کر گشت پر مامور سپاہی تک کے ہاتھوں میں جدید اور اعلیٰ معیار کا اسلحہ ہوتا جس سے وہ دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے۔ سی ٹی ڈی کو اب کہیں جا کے ایک عمارت ملی ہے جہاں ان کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا ہے۔ اس تذکرے میں خیبر پختونخوا پولیس کی جرأت مندانہ مبازرت کا سوال نہیں۔ ان کی کامیابیوں اور لازوال قربانیوں کا پوری طرح اعتراف بھی ہے اور ادراک بھی کہ وہ اپنے جانیں قربان کرکے اور اپنے جسموں کو ڈھال بنا کر ان عناصر کو ناکام بناتے آئے ہیں۔ لیکن اگر وہ نہتے نہ ہوتے تو پولیس کی کارکردگی آج اس سے کہیں بہتر اور کامیابی کی شرح کہیں زیادہ ہوتی۔

افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ پولیس شہدا کے ورثا اور معذور اہلکاروں کو جس درجے کی دستگیری اور امداد کی ضرورت ہے اگر وفاق سے موصولہ رقم سے ان کی تھوڑی بہت فلاح و بہبود و بحالی پرتوجہ دی جاتی تو آج وہ در در کی ٹھوکریں نہ کھاتے۔

بہر حال یہ معاملہ اب جب کہ صوبائی اسمبلی کے ایوان میں پہنچا ہے اورحکومت نے رقم کی وصولی کا اعتراف بھی کر لیا ہے تو اب یہ سوال بھی ضروری ہے کہ یہ خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی۔

وفاق کے ذمے واجب الادا بجلی کے خالص منافع کی رقم ہو یا مالیاتی کمیشن میں قبائلی عوام کا مختص حصہ اور دیگر واجبات، اس حوالے سے مرکزی حکومت سے مطالبات یا عدم ادائیگی کے لیے زور ڈالنا تبھی مؤثر ہوگا جب صوبے کی حکومت دستیاب وسائل اور موصولہ رقم کی منصفانہ تقسیم اور خرچ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس کا حساب بھی دے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ طویل عرصے سے منسلک ہیں۔ ٹی وی شوز کی میزبانی سمیت سیاست، شدت پسندی ، حالات حاضرہ، ماحولیات اور صحت سے متعلق امور کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp