انگلینڈ سے فتح پر کن 2 شخصیات نے سکھ کا سانس لیا؟

ہفتہ 26 اکتوبر 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انگلینڈ سے سیریز جیتنے کی سب سے زیادہ ضرورت 2 شخصیات کو تھی، دونوں نے ہی جب سے اس ٹیم کی ذمہ داری سنبھالی ہر گزرتے دن کے ساتھ شکست، مایوسی اور تنقید کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے لیکن دونوں نے تمام تر وار خوش دلی اور خندہ پیشانی سے سہے لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔

ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دونوں پر طنز کے نشتر برسائے گئے لیکن دونوں نے ہمت جواں رکھی اور پھر غم اور دکھ کے بادل چھٹنے لگے۔ ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے دونوں نے سبق تو سیکھا لیکن اس کے لیے ایک طویل اور صبر آزما امتحان یا آزمائش سے گزرنا پڑا۔ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے کہ یہ دونوں شخصیات کوئی اور نہیں محسن نقوی اور شان مسعود ہی ہیں۔

محسن نقوی نے رواں سال فروری میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سنبھالی تو قومی کرکٹ ٹیم ایک کے بعد ایک ناکامیوں کے بھنور میں الجھتی چلی گئی۔ کبھی ٹی 20 تو کبھی ایک روزہ میچز تو کبھی ٹیسٹ میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے ہار کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

پے درپے شکست اس اعتبار سے بھی قابل گرفت بنی کیونکہ محسن نقوی نے جب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری سنبھالی تو اُس وقت سے وہ تواتر کے ساتھ یہ کہتے رہے کہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔

ٹیم میں گروپنگ کرنے والے کھلاڑیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، ٹیم میں وہی کھیلے گا جو پرفارم کرے گا۔ محسن نقوی تو یہ بھی کہتے رہے کہ قومی ٹیم کو چھوٹی نہیں بڑی سرجری کی ضرورت ہے لیکن اس بڑی یا چھوٹی سرجری کا بس انتظار ہی رہا۔

دوسری جانب شان مسعود ہیں، جنہیں بابراعظم پر فوقیت دی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے شان مسعود سے بھی جیسے فتح کی دیوی روٹھی ہوئی تھی۔ ہر جتن کرلیا ہر گُر آزمایا لیکن کامیابی کوسوں دور کھڑی ہو کر ان پر مسکراتی رہی۔ مسلسل 6 ٹیسٹ میچز ہارنے کے بعد یہ بھی قیاس آرائیاں اڑ رہی تھیں کہ کپتانی سے ہی نہیں ٹیم سے بھی انہیں باہر نکال دیا جائے گا۔

ذرا تصور کریں کہ ملتان میں انگلش کرکٹ ٹیم کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگز اور 47 رنز کی شکست کے بعد تو توقع ہی نہیں تھی کہ یہ ٹیم پلٹ کر وار کر پائے گی۔ لیکن پھر محسن نقوی اور ان کے کپتان نے وہ دلیرانہ  فیصلے کیے جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

بابراعظم اور شاہین شاہ آفریدی کو ٹیم سے ڈراپ کرنے پر ناقدین نے بورڈ پر قیامت ڈھانے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن یہ بہت جرات مندانہ فیصلے تھے جس کو سنجیدہ حلقوں نے ’دیر آید درست آید‘ کے طور پر دیکھا۔ تب جا کر یقین بھی ہوا کہ لگتا ہے کہ محسن نقوی نے اب واقعی چھوٹی نہیں بڑی سرجری سے ٹیم کا استقبال کردیا ہے۔

پھر سب نے دیکھا کہ بابراعظم ، نسیم شاہ اور شاہین شاہ کے بغیر بظاہر لڑکھڑاتی ہوئی نسبتاً کمزور ٹیم نے مہمان انگلش ٹیم کو خونخوار انداز میں دبوچ لیا۔

یہ سلسلہ دوسرے ٹیسٹ کے بعد تھما نہیں بلکہ تیسرے ٹیسٹ میں بھی کامیابی کے بعد شان مسعود اور ان کی ٹیم نے انگلش ٹیم کو ایسا دبوچا کہ سیریز ہی جیت لی۔

کسی کو یقین ہی نہیں آرہا، سکھ کا سانس جہاں کپتان شان مسعود نے لیا وہیں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی جنہیں کرکٹ پنڈت ہی نہیں ان کے حریف سیاست دان بھی آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں، نے سکھ کا سانس لیا۔

محسن نقوی کو یہ بھی سننے کو بھی ملا کہ یا تو وہ وفاقی وزیر رہیں یا کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہی رہیں، بظاہر یہی دکھایا گیا کہ اسٹار پاور سے اب دونوں نے نجات حاصل کرکے کھلاڑیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ٹیم میں وہی رہے گا جو پرفارم کرے گا۔

کوئی اگر ’ کنگ ‘ ہے یا  ’سپر اسٹار ‘  تو اسے اپنی حکمرانی سوشل میڈیا پر نہیں میدان میں دکھانی ہوگی۔ واضح  پیغام تو یہ بھی ملا کہ ٹیم میں صرف لابنگ یا اسٹار پاور کے ذریعے آنے کا ’سوچنا بھی نہیں‘ ۔

نعمان علی اور ساجدخان نے نئی روح پھونک دی

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ 2 سپراسٹارز کو ٹیم سے باہر رکھنے اور 2 سادہ سے کھلاڑیوں کی انٹری کے بعد تو جیسے اس ٹیم میں نئی جان ہی آگئی۔ نعمان علی اور ساجد خان وہی ہیں جنہیں خود ساختہ تجزیہ کار یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمر رسیدہ بولرز کے بجائے نوجوانوں کو موقع دیا جانا چاہیے اورپھر یہ ’نوجوان‘ کس کی خواہش پر ٹیم سے چمٹے رہے یہ سبھی کے علم میں ہے۔

نعمان علی اور ساجد خان نے جیسےشکست، ناکامی اور تنقید کے بوجھ تلے دبی ٹیم میں نئی روح پھونک دی، نعمان اور ساجد نے دونوں ٹیسٹ میچوں میں بالتریب 20 اور 19 شکار کیے۔ یہ اُن کھلاڑیوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جنہیں ’نامعلوم وجوہ‘ یا ’پسند نا پسند‘ کے ترازو میں تولا جاتا رہا ہے۔

جو غصیلا اور پرجوش انداز نسیم شاہ اور شاہین شاہ کو دکھانا مقصود تھا وہ ان بولرز نے کر دکھایا۔

کیا اب ٹیم درست سمت گامزن ہے؟

محسن نقوی ہوں یا شان مسعود دونوں کےلیے اس وقت راحت ہی راحت ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اگلے ہی ہفتے اسی ٹیم کا ٹاکرا آسٹریلیا سے اس کے میدانوں پر ہونے والا ہے۔  شان مسعود تو فی الحال ٹیسٹ سیریز کی جیت کا لطف اٹھائیں گے لیکن چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی کے سامنے آسٹریلیا جیسی آزمائش آکھڑی ہوئی ہے۔

اب ایسے میں یہاں اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹیم آسٹریلیا میں کچھ کر پائے گی تو یہاں یہ بھی بتادیں کہ اس بار آسٹریلیا میں 3 ون ڈے اور 3 ہی ٹی 20 کھیلنے جارہی ہے اور چیئرمین کرکٹ بورڈ کے لیے ایک نیا امتحان یہ بھی کہ بابراعظم کی قیادت سے سبکدوشی کے بعد وہ کس کے سر پر کپتانی کا تاج رکھیں۔

مضبوط امیدوارمحمد رضوان ہی ہیں کیونکہ شاہین شاہ اپنی پرفارمنس کی بنا پر یہ ذمہ د اری اٹھانے سے قاصر ہیں۔ پھر ان کی ٹیم میں موجودگی پر بھی تنقید ہورہی ہے۔ اب یہاں یہ بھی توجہ طلب بات ہے کہ اگر رضوان نے معذرت کرلی تو پھر کیا ہوگا؟

کرکٹ بورڈ سے مزید جراتمندانہ فیصلے کی توقع

کرکٹ تجزیہ کاروں کے مطابق بابراعظم، نسیم شاہ اور شاہین شاہ کو ڈراپ کرکے واقعی کرکٹ بورڈ نے بہت جراتمندانہ فیصلہ کیا ہے لیکن کیا یہ عمل وائٹ بال کرکٹ میں بھی  ہوگا کہ ٹیم میں اب وہی شامل ہوں گے جو ’پرفارم‘ کریں گے۔

محسن نقوی کی ٹیم کے لیے ’سرجری‘ کا یہ عمل اب تھمنا نہیں چاہیے ممکن ہے اسی کے خوف اور ڈر سے یہ کھلاڑی کچھ کر دکھانے کی جستجو کرتے رہیں، ورنہ کارکردگی کے سلسلے میں بس نشیب و فراز ہی آتے رہیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp