اپنا پہلا انتظامی قدم اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت قائم کردہ کمیٹی کی تشکیل نو کردی ہے۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں نئی تشکیل کردہ 3 رکنی کمیٹی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بحیثیت اراکین شامل کیے گئے ہیں۔ جس کا رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سید جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے خلاف تھے لیکن اب وہ اسی کمیٹی کے رکن ہیں۔ جس کے بعد مختلف سوالات ابھر رہے ہیں۔ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جسٹس سید منصور علی شاہ مخالفت کے باوجود رکن بنے۔ اور کیا اب آئینی بینچ کی تشکیل میں حکومت کے لیے اپنی مرضی کرنا مشکل ہوگا؟
اس حوالے سے وی نیوز نے چند آئینی ماہرین سے بات کی اور مذکورہ بالا سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر اور ایڈووکیٹ عمران شفیق کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ کا اگر کوئی اصول ہوتا تو وہ کبھی نہ بیٹھتے۔ مگر اس کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ان کا ذاتی اور شخصی اختلاف تھا۔ اور جب وہ شخص چلا گیا تو انہوں نے کمیٹی میں بیٹھنا گوارا کر لیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کو ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ دوسرے نمبر پر سینئر ترین جج جسٹس منیب کو جس آرڈیننس کے تحت نکالا گیا اس آرڈیننس کا پہلے جائزہ لے لیا جائے۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے اس آرڈیننس پر عملدرآمد کرتے ہوئے تیسرے سینئر جج امین الدین کو بطور ممبر شامل کر لیا۔ چونکہ پہلے یہ ایکٹ تھا اور ایکٹ میں یہ واضح لکھا ہوا تھا کہ چیف جسٹس کے ساتھ 2 سینئر ججز شامل ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس آرڈیننس کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے دونوں سینئر ججز جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل کیا۔ جسٹس منصور تو چاہتے ہی یہ تھے کہ ایکٹ کے مطابق 2 سینئر ججز کو شامل کیا جائے۔ جب دونوں سینئر ججز کو شامل کر لیا گیا تو ان کے اعتراضات ختم ہو گئے۔
ایک سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ عمران شفیق کا کہنا تھا جو آئینی جوڈیشل کمیشن بنانا ہے اس کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیونکہ آئین فوقیت رکھتا ہے پریکٹس اینڈ پراسیجر ایکٹ پر۔آئین میں آئینی بینچ کو بنانے کا جو طریقہ کار طے کیا گیا ہے، اس کے ممبران میں سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ججز شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ بھی جو آئینی جوڈیشل کمیشن بنے گا، اس میں بھی جسٹس منصور اور جسٹس منیب دونوں ہی ہوں گے۔ اور فیصلہ سازی میں بھی شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس اور تیسرے سینئر جج بھی ہوں گے۔ اب اس میں ایک ابہام یہ ہے کہ اس میں ایک چوتھا ممبر بھی لکھا ہوا ہے جو آئینی بینچ کا سربراہ ہوگا وہ بھی ممبر ہوگا۔ اور وہ اس وقت تک تعینات نہیں ہو سکتا جب تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہ ہو جائے۔ اجلاس ہوگا تو ہی آئینی بینچ کا سربراہ بنے گا۔
اب ابہام یہ ہے کہ آئینی بینچ کی پیدائش تب ہونی ہے جب جوڈیشل کمیشن مکمل ہو جائے۔ اب جوڈیشل کمیشن پہلے مکمل کیا جائے گا جو کہ ناممکن ہے۔ کیونکہ جوڈیشل کمیشن اس وقت تک مکمل ہونا ناممکن ہے جب تک اس میں آئینی بینچ کا سربراہ نہ موجود ہو۔ اور اس کا سربراہ تب لگے گا جب جوڈیشل کمیشن اجلاس کرے گا۔ ’اب یہ مرغی انڈہ پہلے دے گی، یا انڈے سے مرغی کی پیدائش ہوگی‘ یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا’ لیکن اس میں ایک کلاز یہ بھی ہے کہ کسی نشست کے فل نہ ہونے کی وجہ سے کمیشن کی پروسیڈنگ نہیں ہوگی۔ اس چیز سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر سربراہ نہ بھی ہوا تو جب اجلاس ہوگا تو 13 میں سے 12 ممبران بیٹھے ہوں گے تو وہ سب سے پہلا کام یہی کریں گے کہ آئینی بینچ کے سربراہ کا تعین کریں گے، اس کے بعد پروسیجر مکمل ہوجائے گا۔ آئینی بینچ میں وہ لوگ آئیں گے جو جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔ اور جو سپریم کورٹ میں کیسز ہیں اور سپریم کورٹ کے باقی بینچز کیسے بنیں گے وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ طے کرے گا۔
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے میں حکومت کی نہیں چل پائے گی۔ حکومت کو مشکلات ہوں گی۔ 6 ووٹ تو حکومت کے پاس ہیں۔ اور حکومت کے خلاف 4 ووٹ ہیں۔ اور باقی جو 2 ووٹ رہ جاتے ہیں۔ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چوتھے نمبر پر جو کمیشن میں جج آئے گا ان کا ووٹ شامل ہوگا۔ اس میں اگر چیف جسٹس حکومت کی طرف جاتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اگر وہ ججز کے ساتھ چلتے ہیں تو یہاں معاملات برابر ہوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر بات کی جائے تو حکومت مشکل کے باوجود یہاں سے بھی نکل جائے گی۔ مطلب ایک آدھ ووٹ سے ہی حکومت کی مرضی سے ہی آئینی بینچ بن جائیں گے۔ جس میں بڑا کردار پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ادا کرے گا۔
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پہلے اس کے مخالف تھے۔ اس وقت ان کی مخالفت کسی اور زمرے میں تھی۔ کیونکہ مخالفت اس وقت کی تھی جب صدارتی آرڈیننس آیا تو اس کے تحت سنیارٹی کا اصول توڑ دیا گیا تھا۔ اب جب دونوں سینئر ججز شامل ہوگئے ہیں تو اب مخالفت کی کوئی وجہ بنتی بھی نہیں ہے۔
جسٹس منصور کے شامل ہونے سے حکومت کی مشکلات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے ذہنوں میں عدالتوں کو کنٹرول کرنے کا جو تصور ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ اور شاید اب بھی پورا نہیں ہوگا۔ اس لیے حکومت کی مشکلات برقرار رہیں گی۔ ججز کو ویسے بھی حکومتیں مشکلات سمجھتی ہیں۔ باقی تو معاملات اصولوں کے مطابق ہی چلتے ہیں۔ اور اس پر سب کو خوش ہونا چاہیے۔
اور مرضی اس لیے نہیں چل سکتی، کیونکہ عدالتوں میں لوگ کتاب کے مطابق چلتے ہیں۔ اور کتاب سے باہر نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جہاں بندہ کتاب سے باہر نکلتا ہے تو وہاں پھر وہ اپنی خود کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
کیا حکومت کو صرف جسٹس منصور کے آنے سے مشکل ہوگی؟ یا اگر وہ نہ بھی ہوتے تو بھی اسے مشکل ہی ہوگی؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس منصور نہ بھی ہوتے تو حکومت کو مشکل ہی ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ سپریم کورٹ کو اپنی مرضی سے چلائیں گے تو یہ بالکل ممکن نہیں۔ کیونکہ عدالتوں کو کتاب کی مرضی سے چلنا ہوتا ہے۔ اور جب وہ کتاب کے مطابق چلتے ہیں تو پھر یہ حکومتوں سے برداشت نہیں ہوتا۔
آئینی ماہر ایڈووکیٹ حسن رضا پاشا نے بتایا کہ جسٹس منصور نے مخالفت اس لیے کی تھی کہ جو آرڈیننس آیا تھا اس میں جسٹس منیب اختر کو نکالنے کے لیے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ چیف جسٹس پریکٹس اینڈ پراسیجر کمیٹی کے تیسرے رکن کو اپنی مرضی سے منتخب کرے تو کمیٹی بن جائے گی۔ چاہے وہ گیارہویں نمبر کا کیوں نہ ہو۔ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کے مطابق تیسرے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کو شامل کیا۔ اور دوسرے نمبر کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کو نکال دیا۔ تو جسٹس منصور نے اس آرڈیننس کی مخالفت کی اور کہا جب تک یہ ختم نہیں ہوتا۔ میں کسی آئینی بینچ کا حصہ نہیں بنوں گا۔
لیکن اب جسٹس یحییٰ آفریدی نہیں چاہتے کہ جسٹس امین الدین خان کمیٹی میں ہوں، انہوں نے اسی آرڈیننس کے ذریعے اپنی مرضی سے جسٹس منیب اختر کو منتخب کر لیا ہے۔ یوں جسٹس منصور کی مخالفت ختم ہو گئی۔
مزید ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور کے آنے سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ آئینی بینچ تو یہ کمیٹی نہیں بنائے گی۔ آئینی بینچ تو جوڈیشل کمیشن بنائے گا اور اس کے سربراہ ایک سینئر جج کو بنایا جائے گا۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس بینچ میں ردو بدل کا اختیار نہیں ہے۔ اس لیے حکومت پر جسٹس منصور کے کمیٹی میں شامل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ جسٹس منصور کو آئینی بینچوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔