دس اپریل 1988 کو اتوار کی صبح 10 بج کر 30 منٹ پر جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد زوردار دھماکوں سے لرز اٹھے۔ ابھی لوگ دھماکے کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہر طرف سے ان پر راکٹوں اور میزائلوں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ قیامت کی وہ گھڑی جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد میں اوجڑی کیمپ کے اندر اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ کے باعث بم پھٹ رہے تھے۔
میزائل اور راکٹ اُڑ اُڑ کر دونوں شہروں کے مختلف حصوں میں گر کر تباہی پھیلا رہے تھے۔ سڑکوں پر موجود لوگ پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے تھے۔ کسی نے اس کو انڈین حملہ قرار دیا تو کسی نے کہا کہ اسرائیل نے اٹیک کیا ہے۔ سڑک پر چلتی گاڑیاں نشانہ بن رہی تھیں۔
راکٹ اور میزائل لوگوں کے سروں سے گزرتے ہوئے خوف و ہراس پھیلاتے زمین پر گر رہے تھے۔ جڑواں شہروں میں ٹیلی فون بجلی اور گیس کی فراہمی کے نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ چکلالہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بند کر دیا گیا اور پروازوں کی آمد و رفت روک دی گئی۔
اوجڑی کیمپ سے کئی کلومیٹر دور ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی کئی راکٹ گرے۔ اُن دنوں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی اس لیے اتوار کو تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلے تھے۔ دھماکے کے فوری بعد سرکاری و نجی دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ اوجڑی کیمپ کے اسلحہ خانے میں لگی آگ بھڑک رہی تھی اور کیمپ سے ملحقہ آباد گلشن دادن خان کے رہائشی گھر سرمے کا ڈھیر بن چلے تھے۔
زخمیوں کے جسم بُری طرح جُھلس گئے تھے۔ اسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ فوجی دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور امدادی کارروائیاں عروج پر تھیں۔
اسی دوران اطلاع آئی کہ اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے پیداوار محمد خاقان عباسی کی چلتی گاڑی پر 2 راکٹ گرے جس کے نتیجے میں خاقان عباسی ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے بیٹے زاہد عباسی شدید زخمی ہو گئے۔ زاہد عباسی بعد ازاں 14 برس تک کومے میں رہنے کے بعد فوت ہو ئے۔ وفاقی حکومت نے 3 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا۔
صدر جنرل ضیا الحق اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے کویت میں تھے اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کراچی میں تھے۔ جنرل ضیا الحق نے فوری پر وزیراعظم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور صورتحال سے آگاہی حاصل کی اور ہدایات بھی جاری کیں۔
اتوار کی شام ہی وزیراعظم محمد خان جونیجو کراچی سے راولپنڈی پہنچ گئے۔ چکلالہ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں انہوں نے اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی۔ انہیں حادثے کے نقصانات اور تفصیلات پر متعلقہ حکام نے بریفنگ دی۔
دس اپریل کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں انصاف و پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر وسیم سجاد نے بیان پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ ’فوج کے بارود کے ذخیرے میں اس وقت اتفاقیہ آگ لگ گئی، جب ایک ٹرک سے بارود کو سنبھالا جا رہا تھا۔ ٹرک میں آگ بھڑکی تو اس نے پورے ذخیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘۔
سانحے میں 93 سے زائد افراد ہلاک اور 1100 سے زائد زخمی ہو ئے۔ موقع پر موجود جوانوں نے آگ پر قابو پانے کی کوشش کی مگر وہ کوششیں بے سود رہیں اور نتیجے میں بہت سارے دھماکے ہوئے بعض راکٹ جڑوان شہروں کے کئی علاقوں میں جا گرے جس سے بھگدڑ مچ گئی اور جانی و مالی نقصان ہوا۔
صدر جنرل ضیا الحق نے11 اپریل کو کویت سے واپس پہنچنے کے بعد جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ متاثرین سے ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے، آیا یہ واقعہ تھا، حادثہ تھا یا غفلت کا نتیجہ تھا یا سبوتاژ تھا۔
جنرل ضیا الحق نے کہا کہ انکوائری رپورٹ کو لازمی مشہتر کیا جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت عوام سے کچھ نہیں چھپانا چاہتی۔ انھوں نے کہا کہ مسلح افواج اپنی روایات کے مطابق ذمہ دار افراد کے خلاف ضرور کارروائی کریں گی۔صدر ضیا الحق نے کہا کہ وہ حقائق پر پردہ ڈالنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اتنا گولہ بارود گنجان آباد علاقے میں کیوں رکھا گیا اس بارے میں عرض ہے کہ اوجڑی کیمپ قیام پاکستان سے قبل کا ہے وہاں اسی زمانے سے فوجی یونٹیں رہتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جہاں بھی افواج پاکستان کی کوئی تنصیبات ہوتی ہیں وہاں پوری احتیاطی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اب یہ انکوائری کیمشن طے کرے گا کہ سانحہ تخریب کاری سے ہوا یا غفلت اور لاپرواہی سے ہوا۔‘جنرل ضیا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ افواہ کہ کیمپ میں ذخیرہ شدہ ہتھیار افغان مجاہدین کو دیے جانے تھے محض قیاس ہے۔‘
صدر جنرل ضیا الحق نے اپنی پریس کانفرنس میں جس انکوائری کمیشن کا حوالہ دیا ہے وہ کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں فوجی افسروں پر مشتمل تھا جو فوج اپنی انٹرنل انکوائری تھی۔ 12 اپریل کو وزیراعظم محمدخان جونیجو کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر مواصلات محمد اسلم خان خٹک کی سربراہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کی گئی۔
اس خصوصی کمیٹی میں وزیر اطلاعات قاضی عبدالمجید عابد، وزیر داخلہ نسیم احمد آہیر، وزیر مملکت میر ابراہیم بلوچ اور دفاع کے وزیر مملکت رانا نعیم محمود شامل تھے۔
اوجڑی کیمپ؟
اوجڑی کیمپ دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا پرانی طرز کا اسلحہ خانہ تھا جو سرخ اینٹوں پر تعمیر کی گئی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ کیمپ میں فوجی یونٹس قیام کرتے تھے لیکن 1979 میں اسے اسلحہ کے عارضی ذخیرے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ جہاں ضرورت کے وقت ہتھیار لائے اور لے جائے جا سکتے تھے۔