حکمراں اتحاد نے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے کی مسلسل کوششوں، ملاقاتوں اور مذاکرات کے بعد بالآخر 26ویں آئینی ترمیم منظور کرالی۔ حکومت کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ آئینی ترمیم کوئی نئی بات نہیں بلکہ سنہ 2006 میں تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط کردہ میثاق جمہوریت ہی کا ایک جزو ہے۔ تاہم اس آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے فوراً بعد ہی 27ویں آئینی ترمیم کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس ترمیم میں کچھ ایسے نکات رہ گئے ہیں جنہیں 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
وی نیوز نے تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کیا حکومت اب 27ویں ترمیم پیش کرنے جا رہی ہے؟ اور کیا اس ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم ہونے والی ہیں؟
واضح رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی خبر سب سے پہلے سینئر صحافی انصار عباسی نے دی تھی، وی نیوز نے انصار عباسی سے گفتگو کی اور آئینی ترمیم کے لیے حکومتی تیاری کے حوالے سے استفسار کیا۔انہوں نے بتایا کہ آج وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں ملاقات کی ہے۔ اس میں 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت ہوئی ہے، لیکن میرے ذرائع کے مطابق اس ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس یا وہ تجاویز جن کو 26ویں ترمیم کے وقت مسترد کیا گیا تھا ان کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
انصار عباسی کے مطابق 27ویں ترمیم بھی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے بعد سامنے آئے گی۔ اس ترمیم میں ایم کیو ایم کے بلدیاتی نظام کی بہتری کے مطالبے کو پورا کیا جائے گا۔ بلوچستان کے صوبائی حلقے چونکہ بہت بڑے ہیں تو ان حلقوں کو چھوٹا کر کے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ ایسی ہی کچھ دیگر چیزیں 27ویں ترمیم میں تجویز کی جائیں گی۔
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک تو صرف میڈیا پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ 27 ویں ترامیم آرہی ہے لیکن کوئی اس کے خد و خال بیان نہیں کیے جا رہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے 26ویں ترمیم میں جو چند خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کیا جائے گا تو دوسری جانب کوئی کہہ رہا ہے کہ 27 ویں ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس کا قیام ہونے والا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح کرے کہ کیا کوئی آئینی ترمیم آنے والی ہے اور اگر آنے والی ہے تو اس کے کیا نکات ہوں گے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ ایک آئینی ترمیم کے بعد دوبارہ فوری طور پر دوسری آئینی ترمیم کرنا کوئی زیادہ غلط بات نہیں ہے۔ 1973 میں پاکستان کا آئین بنا اور اگلے ہی سال اس میں ترمیم کی گئی۔ اگر یہ ترامیم کسی قانونی کو دور کرنے کے لیے کی جائے تو اس میں کوئی قدغن نہیں ہے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس کے قیام سے زیادہ ضرورت نظام انصاف اور استغاثہ اور پراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کی ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم ہیں ان میں کیسز زیر سماعت ہیں لیکن استغاثہ یا پراسیکیوشن اس حد تک کمزور ہے کہ پکے مجرم بھی اس کا فائدہ اٹھا کر بری ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نظام عدل میں بہتری پیدا کرے۔ ملٹری کورٹس میرے خیال میں بنیادی آئینی حقوق کے خلاف ہیں اور انسداد دہشت گردی جیسی عدالتیں اور مختلف تحقیقاتی ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے ملٹری کورٹس کی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے سیاسی ڈائیلاگ کی بات کرتی ہے، بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ملکی مفاد کے لیے کوئی بھی آئینی ترمیم یا قانون سازی کرنی چاہیے۔ ہماری جماعت تو سمجھتی ہے کہ اپوزیشن اور حکمراں اتحاد کو ساتھ مل کر قانون سازی میں حصہ لینا چاہیے، آصف زرداری نے بھی ہمیشہ سے سیاسی ڈائیلاگ کو آگے بڑھایا ہے اب بھی صدر مملکت ہونے کے باوجود انہوں نے سیاسی ڈائیلاگ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
شازیہ مری نے ملٹری کورٹس کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں امن کے لیے ہمارے ملک نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو جب بھی موقع ملا انہوں نے دہشت گردی علاقوں میں ملٹری آپریشن کیے۔ اگر ضرورت ہوئی ملٹری کورٹس کے قیام کی تو سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کے بعد اور صرف امن کی خاطر اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ سب تب ہو گا کہ جب سیاسی جماعتوں کا اس پر اتحاد ہوگا۔
ماہر قانون امور حافظ احسان احمد نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے 2 حصے تھے، ایک حصے میں پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کا فیصلوں کے ذریعے معاملات میں مداخلت کو روکا گیا ہے اور دوسرا چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق تھا، جبکہ اس ترمیم کے ذریعے جو آئینی بینچ تشکیل دیا گیا ہے وہ آئینی عدالتوں کے قیام سے مختلف ہے۔ چونکہ حکومت نے مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کے پریشر کے باعث آئینی عدالتوں کی تشکیل نہیں کی تو ہو سکتا ہے کہ ہر روز سپریم کورٹ میں دائر کسی بھی کیس کو آئینی بینچ منتقل کرنے کی درخواستیں دے دی جائیں۔
حافظ احسان احمد نے کہا کہ 26ویں ترمیم میں حکومت نے بہت سے معاملات کی مکمل طور پر تشریح نہیں کی ہے۔ ان سب میں سب سے ضروری آئینی بینچ کی تشکیل اور اس کے سننے والے کیسز کا معاملہ ہے۔ اب جب تک 27ویں ترمیم نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ آئینی عدالتوں یا آئینی بینچ کا معاملہ حل نہیں ہوگا۔