بھارتی چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنی متنازع ملاقات کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے سربراہ ریاستوں اور مرکز میں حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات میں کبھی زیر التوا مقدمات زیر بحث نہیں لاتے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ملاقاتیں اکثر انتظامی امور سے متعلق ہوتی ہیں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی سودا ہوا ہے، اس طرح کی ملاقاتیں ضروری ہیں کیونکہ ریاستی حکومتیں عدلیہ کے لیے بجٹ پاس کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کی درخواست، بھارتی سپریم کورٹ سماعت پر رضامند
’ہم ملتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ڈیل ہوگئی ہے، ہمیں ریاست کے وزیر اعلیٰ سے بات چیت کرنا پڑے گی کیونکہ انہیں عدلیہ کے لیے بجٹ دینا ہوگا اور یہ بجٹ ججوں کے لیے نہیں ہوتا، اگر ہم ملاقات نہ کریں تو ہمارا کام نہیں ہوگا۔‘
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے زور دیا کہ انتظامی سطح پر عدلیہ اور حکومت کے کاموں کے درمیان باہمی تعلق کے ساتھ بھارتی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے۔ ’جب ہم ملتے ہیں، تو میرا یقین کریں، سیاسی نظام میں بہت پختگی ہوتی ہے اور ان ملاقاتوں میں میرے تجربے سے کوئی وزیر اعلی کبھی بھی زیر التوا کیس پر بات نہیں کرتا۔‘
مزید پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے بی جے پی کی پالیسی پر کارکن بن کر عمل کیا، شہباز شریف
بھارت میں گزشتہ ماہ اپوزیشن نے عدلیہ کی آزادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آئی چندر چوڑ کی ساکھ پر اس وقت سوال اٹھایا جب وزیر اعظم نریندر مودی گنیش پوجا کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔
اس دورے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے کہا تھا کہ آئینی اداروں کے حکام اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان اس طرح کی بات چیت سے عدلیہ پر اعتماد کمزور ہو سکتا ہے، ریٹائرڈ ججوں اور سرکردہ وکیلوں نے چیف جسٹس کی اس ملاقات پر تنقید کی تھی، واضح رہے کہ روان برس ستمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی کا چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے گھر گنپتی پوجا کے لیے جانے کا ویڈیو منظر عام پر آیا تھا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا معاملہ؛ بھارتی سپریم کورٹ 4 سال بعد سماعت کرے گا
واضح رہے کہ جسٹس چندر چوڑ 10 نومبر کو چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے، ان کے بعد جسٹس سنجیو کھنہ اگلے روز یعنی 11 اکتوبر کو چیف جسٹس کو حلف اٹھائیں گے۔