امریکا میں صدارتی انتخابات میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور ساڑھے 4 کروڑ سے زائد امریکی شہری قبل از وقت ووٹ اور میل ووٹ کا استعمال کرچکے ہیں۔ دوسری جانب، 5 نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات کی انتخابی مہمات اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں جن میں ڈیموکریٹک امیدوار اور نائب صدر کملا ہیرس اور ری پبلیکن امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک دوسرے پر ’حملے‘ جاری ہیں۔
اتوار کو ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس ریاست فلاڈیلفیا میں پورٹو ریکو کے ایک ہوٹل گئیں۔ ان کا مقصد شہریوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے لیے راغب کرنا تھا۔ کملا ہیرس کا ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے پاس شکایتیں ہیں، وہ اپنی زبان کو بدلہ لینے اور انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات میں پیشگوئیوں کی مارکیٹ کا کردار زیر بحث کیوں؟
اسی روز ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے نیو یارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں ایک ریلی کی قیادت کی۔ اس ریلی کے آغاز پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے مخالفین پر شدید تنقید کی۔ بعض مقررین نے کملا ہیرس پر مختلف بے بنیاد الزامات کیے اور کیریبین میں امریکا کے خودمختار علاقے پورٹو ریکو کو تیرتا ہوا کوڑے کرکٹ کا جزیرہ بھی قرار دیا گیا۔
انتخابی ریلی کے دوران پورٹو ریکو کا تمسخر اڑائے جانے پر پر لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے افراد اور ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ پورٹو ریکو کے مکین امریکا کے شہری ہیں البتہ وہ انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ پورٹو ریکو کے وہ شہری جو امریکا منتقل ہوچکے ہیں وہ ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریاست پینسلوینیا میں آباد ہیں اور اس ریاست کو انتخابات میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا برطانوی لیبر پارٹی پر امریکی صدارتی انتخابات میں ’بیرونی مداخلت‘ کا الزام
ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے سامنے آنے والی تنقید کے بعد خود کو اپنے حامیوں کی جانب سے کیے جانے والے نسلی بنیاد پر مبنی تبصروں سے الگ کرلیا ہے۔ پیر کو جارجیا میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے مذہبی ووٹرز کو ایک خصوصی تقریب میں مدعو کیا اور کہا، ’میرے خیال میں ملک کو مذہب کی ضرورت ہے، یہ نئی انتظامیہ اور بائیں بازو کا بنیاد پرست ٹولہ آپ کو ترقی کرنے سے روکنے کی کوشش کررہا ہے۔‘
دوسری جانب، کملا ہیرس کی انتخابی مہم کی جانب سے جاری ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ نیویارک کے میڈیسن اسکوائر پر ہونے والی ریلی تقسیم اور توہین آمیز پیغامات کی عکاس تھی۔ کملا ہیرس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ٹرمپ نسل پرستی اور تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے لوگ اب ان سے عاجز آچکے ہیں۔ بعد ازاں، اٹلانٹا میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کملا ہیرس کے بیان کو مسترد کیا اور کہا، ’میں نازی نہیں بلکہ نازی کا متضاد ہوں۔‘
ایگزٹ پولز کیا کہتے ہیں؟
اتوار کو جاری ہونے والے سی بی ایس نیوز/ یو گو پولز کے مطابق، کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں معمولی فرق رہ گیا ہے۔ کملا ہیرس کی مقبولیت 50 فیصد جبکہ ٹرمپ کی 49 فیصد ہے۔ پولزمیں نئے صدارتی امیدوار کے انتخاب میں صنفی تقسیم کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ امریکی مردوں کی زیادہ تعداد ٹرمپ جبکہ خواتین کی زیادہ تعداد کملا ہیرس کی حامی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ میں کس کی مقبولیت زیادہ، تازہ ترین پولز کیا کہتے ہیں؟
پولز میں بتایا گیا ہے کہ 54 فیصد امریکی مرد ڈونلڈ ٹرمپ کو جبکہ 45 فیصد مرد کملا ہیرس کی حمایت کرتے نظرآرہے ہیں۔ اسی طرح، 55 فیصد خواتین کملا ہیرس کو اور43 فیصد خواتین ڈونلڈ ٹرمپ کی حامی ہیں۔ ’فائیو تھرٹی ایٹ‘ ڈیلی الیکشن پول ٹریکر کے مطابق، اتوار تک ٹرمپ کو کملا ہیرس کے مقابلے 1.4 شرح فیصد کی برتری حاصل تھی۔ امریکی میڈیا کے مطابق، مجموعی طور کملا ہیرس کو 48.1 فیصد جبکہ ٹرمپ کو 46.1 فیصد امریکیوں کی حمایت حاصل ہے۔