برازیل سے تعلق رکھنے والے پاؤلوکوئیلو دنیا کے مقبول ترین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ناول ال کیمسٹ کا 80 سے زائدزبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کوئیلو کی مختلف کتابوں کی 30کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ان کا نام سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والے مصنف کے طور پر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ ان کا بچپن اور نوجوانی کئی حیران کن واقعات سے بھرا پڑا ہے اور مقبولیت کے حصول کے بعد بھی کئی حیرت انگیز باتیں اورریکارڈز ان کے نام کے ساتھ منسوب ہوچکے ہیں۔
کوئیلو کے بقول مصنف بننا ان کے بچپن کا خواب تھا اوروالدین نے ان کی تخلیقی آرزوؤں پر پانی پھیرتے ہوئے، اوران کی گم صم شخصیت کو پاگل پن سمجھتے ہوئے، دماغی امراض کے اسپتال میں داخل کروا دیا اور اپنے لاڈلے بچے کو بجلی کے جھٹکے تک لگانے کی اجازت دے دی۔ والدین کی خواہشات کے احترام میں ہی کوئیلو نے لاء کالج میں بھی داخلہ لیا اور مصنف بننے کے خواب کو پس پشت ڈال دیا۔ ایک سال بعد انھیں کالج سے نکال دیا گیا، انھوں نے ایک ہپی کا روپ دھار لیا اور نشہ کرنے لگ گئے۔ بعدازاں وہ ایک اداکار اور ہدایت کار کے طور پر ایک تھیٹر گروپ سے منسلک ہو گئے اور بطور صحافی بھی ایک میگزین میں اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اُسی مشکل دور میں موسیقاررال سیکساس نے اْنھیں اپنے لیے گیت لکھنے کی دعوت دی۔ اْن کے لکھے ہوئے ایک ریکارڈ کوکافی شہرت ملی جس کی پانچ لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک بڑی رقم ان کے ہاتھ آئی۔
کوئیلو اپنے تخلیقی کیرئیر میں تاخیر پر قابو پانے میں مصروف تھے جب ان کے بقول انھوں نے ایک دن یونہی سوچا، ’’اگر میں آج ایک سفید پر دیکھوں تو یہ خدا کی طرف سے مجھے نئی کتاب لکھنے کا اشارہ ہو گا‘‘ اور پھر انھیں دکان کی کھڑکی میں سے ایک پر دکھائی دیا اور انھوں نے اسی دن لکھنا شروع کر دیا۔
ایسا ہی ایک اور حیران کن واقعہ اس وقت پیش آیا جب جرمنی میں ڈچاؤ کیمپ میں حراست کے دوران کوئیلو کواپنے تصورمیں ایک شخص نظر آیا۔ دو ماہ بعداسی شخص سے ایمسٹرڈیم کے ایک کیفے میں ملاقات ہوئی، جس کی شناخت کوئیلو نے کبھی ظاہر نہیں کی، اس نےتجویز دی کہ کوئیلو کو کیتھولزم کی طرف واپس لوٹ جانا چاہیے۔ جس کے بعد کوئیلو نے عیسائیت کی علامتوں والی زبان سیکھناشروع کر دی۔ مذکورہ شخص نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ انھیں سینٹیاگو کی طرف جانے والی سڑک پر (زمانہ وسطیٰ کے زائرین کا فرانس اور ہسپانیہ کے بیچ روٹ) سفر کرنا چاہیے۔
اس اجنبی سے ملاقات کو ئیلو کی زندگی کا اہم ترین موڑثابت ہوئی اور کوئیلو نے 1986 میں اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پانچ سو میل کا پیدل سفرطے کیا، یہ سفر ان کے لیے روحانی طور پر خوش قسمتی کا سبب بنا۔ اس کا تذکرہ کوئیلو نے اپنی سوانح میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں معمول کے کاموں میں خوش تھا، میں جو کر رہا تھا اس سے میری روزی روٹی چل رہی تھی۔ میں نے ایک شخص سے محبت کی تھی، میرے پاس دولت تھی لیکن میرے خوابوں کی تکمیل نہیں ہو پا رہی تھی، میرا خواب تب بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں ایک مصنف بنوں۔ کوئیلوکے بقول انھیں اس تہوار میں ایسا روحانی تجربہ ہوا جس کی جھلک قاری کو ان کے شہرہ آفاق ناول الکیمسٹ میں نظر آتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے ایک انٹرویو کے دوران پاؤلوکوئیلو کانام غلط ادا کر دیا جس پر سوشل میڈیا میں ایک طوفان مچ گیا اور ہماری سوشل میڈیائی روایات کے عین مطابق طرح طرح کی میمز بنائی گئیں اور مذاق اڑایا گیا، اس سے قبل بھی کئی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے منہ سے غلطی سے ایسے الفاظ نکل چلے ہیں جنھیں لائیکس اورویوز بڑھانے کے چکر میں سوشل میڈیا پرخوب رگڑا دیا گیا لیکن یہ بات پاؤلوکوئیلو کے بارے میں تھی، سو اس کی گونج عالمی سطح پربھی سنی گئی۔ اس ہنگامے کا اختتام خود پاؤلوکوئیلو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں بدیسی نام ادا کرتے ہوئے اکثر تلفظ کی غلطی کرجاتا ہوں، سو اس پر تنقید کی ضرورت نہیں۔ ‘