2 نومبر صحافیوں کے خلاف جرائم کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے وی نیوز کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے معروف صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے سندھ میں جو صوبائی سطح پر قانون سازی کی گئی ہے اور وفاقی حکومت کا قانون بھی موجود ہے، ان دو قوانین پر پوری طرح سے عمل درآمد ہونا چاہیے۔ حکومت اپنی اچھی نیت کا ثبوت دے اور بتائے کہ ہم نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے جو کر سکتے تھے، وہ کیا ہے۔ دوسری طرف صحافیوں کو بھی اپنا کوئی معیار رکھنا چاہیے۔ یہاں صحافت کی تعریف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کون بندہ صحافی ہو سکتا ہے۔ ساتھ میں صحافیوں کو یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی کس طرح کی صحافت کرے گا کہ جب اس کو کوئی مشکل پیش آئے تو صحافی اس کے لئے باہر نکلیں، ہر ایک کی ہم ضمانت نہیں دے سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ بندوں کو اٹھانے، غائب کرنے اور ہراساں کرنے کے بجائے انہیں انگیج کرے ۔
پاکستان میں اس وقت صحافیوں کو فزیکل سے زیادہ لیگل ہراسانی کا سامنا ہے
عمر چیمہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں صحافیوں کے خلاف اگر جسمانی تشدد کے واقعات ہوئے ہیں تو وہ دور دراز علاقوں میں ہوئے ہیں۔ اگر بڑے شہروں کی بات کی جائے تو یہاں پر زیادہ صحافیوں کو لیگل ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہراسانی کا ایک طریقہ سوشل میڈیا ٹرولنگ نے بھی لے لی ہے۔ صحافیوں کو سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کی وجہ سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایسے ٹویٹ کر دیے جن کی بنیاد پر انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
صحافی کے لیے مصدقہ معلومات خطرات کو مکمل طور پر ختم تو نہیں کرتیں لیکن کم ضرور کرتی ہیں
عمر چیمہ نے کہا کہ میں بائیں بازو اور دائیں بازو کی تقسیم سے ماورا ہو کر صرف دستیاب معلومات کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔ جب رائے تبدیل کرتا ہوں تو اس کی بنیاد بھی معلومات ہی ہوتی ہے۔ صحافی کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی موضوع پر معلومات اکٹھی کرے تو ہمیشہ اس پر شک کرے کہ آیا اس کے پاس درست معلومات ہیں یا نہیں۔ درست اور مصدقہ معلومات صحافی کے لیے خطرات کو کم تو نہیں کرتیں لیکن یہ کافی حد تک اس کو خطرات سے بچاتی ہیں۔
اگر صحافی بھی تاثر پر چلے تو اس میں اور عام آدمی میں فرق نہیں
انہوں نے کہا کہ اگر صحافی بھی تاثر پر ہی چلے تو اس میں اور عام آدمی میں فرق نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تربیت کی روایت نہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’لوگ یہ کہتے ہیں‘ ۔۔۔ لوگ جو کہتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ٹھیک ہو۔
پنجاب کالج والے واقعے میں ساری بات کلیئر ہو چکی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، لیکن ایک دوست سے بات کی تو وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ کہنے لگا دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔ مطلب وہی تاثر والی بات۔ ایک عام بندہ تاثر کی بنیاد پر رائے قائم کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک صحافی کو ایک تاثر کی بنیاد پر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
برطانیہ ہتک عزت قوانین مقدمات کے لیے مشہور ہے
اظہار رائے کی آزادی پاکستان میں زیادہ ہے کہ مغربی ممالک میں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عمر چیمہ نے کہا کہ برطانیہ تو لائیبل ٹورزم کی وجہ سے مشہور ہے۔ مثلاً میں ایک اخبار چلاتا ہوں جو پاکستان اور برطانیہ دونوں جگہ سے شائع ہوتا ہے۔ اگر کسی نے مجھ پر مقدمہ کرنا ہے تو وہ برطانیہ میں کرے گا کیونکہ وہاں ہتک عزت کے قوانین مضبوط ہیں۔
صحافیوں کو اپنی تربیت اور احتساب کے اقدامات خود کرنے چاہئیں
عمر چیمہ نے کہا کہ ہم صحافی یہ چاہتے ہیں کہ تمام اداروں کا احتساب ہو لیکن ہمارا نہ ہو۔ اس کے لیے ہم فارمولا یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہم اپنا احتساب خود کریں گے۔ اور اس کے لیے آواز تب بلند کرتے ہیں جب حکومتی سطح پر کوئی قوانین بن رہے ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر تو ہمیں اپنے احتساب کے لیے خود اقدامات کرنے چاہئیں لیکن جب کوئی بندہ بھی نہیں کرتا تو حکومت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی اصولوں کی تربیت حکومت نے تو نہیں کرانی، لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ سرکار ہمارے کام میں مداخلت کرے۔