پرانے وقتوں میں سردی کی آمد ہوتے ہی ہر کوئی گلی میں پھیری والے کا منتظر رہتا تھا۔ ’میٹھی ریوڑی اور مونگ پھلی لے لو‘ یہ وہ آواز ہوا کرتی تھی جو سب محلہ داروں کو فوری سے ریڑھی کے آس پاس جمع ہو جانے پر مجبور کردیا کرتی تھی۔
دن بھر کے بعد محلے داروں کی دن کی یہ آخری ملاقات بھی ہوا کرتی تھی۔ خیر یہ زمانہ تو اب نہیں رہا، اور اگر کہیں اب بھی یہ نظام چل رہا ہے تو یقیناً وہ محلہ بہت ہی خوش نصیب لوگوں کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں جھنگ میں سردیوں کی خاص غذا، السی کے لڈو کیسے بنائے جاتے ہیں؟
صرف یہی روایت ہی ختم نہیں ہوئی، اس کے ساتھ بھٹیوں پر مونگ پھلیاں بھوننے کا رواج بھی دم توڑتا جا رہا ہے، اور یہ مونگ پھلی کا ذائقہ بدلنے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ اب بجلی سے چلنے والے آٹومیٹک پلانٹ لگ گئے ہیں اور زیادہ تر مونگ پھلی پلانٹوں پر تیار ہورہی ہے، جس میں مونگ پھلی کو خوبصورت رنگ دینے کے لیے پاؤڈر استعمال کیا جاتا ہے۔
بھٹیوں پر مونگ پھلی تیار کرنے والے کاریگروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہاتھ سے بھونی ہوئی مونگ پھلی کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے۔ اور جس کو اس ذائقے کی پہچان ہو جائے وہ کبھی بھی مشینی مونگ پھلی نہیں کھائے گا۔ ’اب بھی بیوپاری جب مونگ پھلی لینے آتے ہیں تو ان میں زیادہ تر کا یہی مطالبہ ہے کہ انہیں ہاتھ سے بھٹی پر تیار کی ہوئی مونگ پھلی چاہیے‘۔
یہ بھی پڑھیں سردیوں کی آمد، کیا عام آدمی خشک میوہ جات خرید پائے گا؟
بھٹی پر مونگ پھلی تیار کرنے میں اچھا خاصا وقت بلکہ بہت محنت بھی درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے کاریگر بھی اب ختم ہوتے جا رہے ہیں، اور بھٹیاں بند ہورہی ہیں۔