2023 سے سیاسی جماعتوں میں ریڈ لائن کی اصطلاح بہت عام ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے عمران خان ریڈ لائن ہیں اور حال ہی میں فاروق ستار ، سینئر ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ صرف مردم شماری ہی نہیں کراچی کا ہر مسئلہ ہماری ریڈ لائن ہے۔ کسی نے موجودہ سیاسی، معاشی اور قانونی بحران میں اپنا سیاسی نعرہ ملک کے مفاد کے مطابق تو نہیں بدلا اور عوام پریشان ہے کہ کس ریڈ لائن کی زیادہ احتیاط ہے۔
الیکشن کی تاریخ کون دے سکتا ہے اور کون نہیں کا سیاسی اور قانونی تھیٹر ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل کی تاریخ دی اور وزارت خزانہ کی فنڈز اور وزارت دفاع کی سیکیوریٹی سے معذرت کے بعد یہ تاثر ذور پکڑنے لگا کے حکومت الیکشن نہ کروانے کے بہانے بنا رہی ہے اور کچھ ہی دن میں الیکشن کمیشن کی طرف سے 8اکتوبر کی نئی تاریخ دی گئی۔ الیکشن کمیشن نے مرحلہ وار الیکشن کی تجویز کیوں نہیں دی؟
الیکشن کمیشن نے سیکشن 8 سی کا حوالہ کیوں دیا جس میں بدنظمی یا کسی طرح کے دباؤ اور بیلٹ پیپر سے متعلق شکایت کے تحت چند پولنگ سٹیشنز میں الیکشن کی تاریخ بدلی جا سکتی ہے اور متعلقہ اداروں کے رپورٹس میں کم سے کم یہ وجوہات نہیں ملتی اور اس کا اطلاق بھی سب پولنگ سٹیشنز پر نہیں ہوتا۔
لیکن سیکشن 58 کے مطابق الیکشن کمیشن کیا مہینوں تک الیکشن کی تاریخ آ گے لے کر جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب واضع طور پر آئین میں نہیں ملتا کے الیکشن کمیشن کب تک تاخیر کر سکتا ہے؟ اور سب سے اہم بات کے اگر الیکشن کمیشن اتنا بے بس اور بے اختیار تھا اور کورٹ کے آرڈر پے عملدرآمد نہیں کروا پا رہا تھا تو آرٹیکل 220 کے تحت تمام ایگزیکٹو اور متعلقہ اداروں کو پابند کر سکتا تھا۔
اور اگر ان میں سے کوئ قانونی آپشنز استعمال نہیں ہو سکتی تھی تو کم سے کم سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا لیکن یکطرفہ نئ تاریخ دے کر الیکشن کمیشن نے بھی یہ ثابت کیا کہ کم سے کم عدالت اسکی ریڈ لائن نہیں ہے۔
پچھلے سال اپریل سے لے کر حکومت کو عدالتی اصلاحات کا خیال کیوں نہیں آیا؟ چیف جسٹس کے سو موٹو کے اختیار کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی اور عدلیہ کے لئے سڑکوں پر نکلنے والے آج سوچتے ہوں گے کے کیسے افراد اداروں کو معتبر نہیں رہنے دیتے ۔
ثاقب نثار پر بھی گورننس اور ایڈمنسٹریشن کے معملات میں مداخلت کا دھبا ہے اور وہ چاہ کے بھی اسکو دھو نہیں سکے۔ جوڈیشل اکٹویویزم کے نام سے ہونے والے مزاق تو بہت پرانا ہے اور حکومت کا ایک مخصوص وقت پر سو موٹو کے حوالے سے قانون سازی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی ریڈ لائن نظریہ ضرورت ہے، آئین نہیں –
بزنس ریکوڈر کی ایک رپورٹ کی مطابق لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا کیسییز کی تعداد ایک لاکھ 73 ہزار 6 سو 15 ہے۔ پنجاب میں ڈسٹرک جوڈیشری میں ،13 لاکھ 7 ہزار 4 سو 38 ہے۔سپیشل کورٹس میں7ہزار 1 سو 80 ہے اور دیگر میں 79 ہزار 3سو 6 کیسیز زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی وبسائٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں 50,000سے زائد کیسیز زیرالتوا ہیں۔
ان اعدادو شمار سے اور نچلی عدالتوں کی کار گردگی کی وجہ سے معذرت کے ساتھ اب یہ کہہ دینا چاہیے کے عدلیہ کی ریڈ لائن انصاف نہیں ہے۔
حکومت اگر عدلیہ کے احترام میں تین ججز کا فیصلہ مان لیتی اور معاملات کو درست سیاسی سمت میں جانے کی نیت رکھتی تو یہُ سیاسی قدآوری کی اعلی مثال ہوتی اور اگر چیف جسٹس بندیال صاحب فل کورٹ کے مطالبے کو جمہوریت کی روح سے دیکھتے تو عدلیہ پر بڑے بڑے داغ بڑی آسانی سے دھل جاتے۔مولوی تمیزادین کیس میں پھر انصاف ہوجاتا اور جسٹس کارنیلیوس کی قانونی روایات امر ہو جاتی ۔ 1954 میں پاکستان کے آئین کا پہلا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا تھا کہ پہلی قانون ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا ۔اور مولوی تمیز ادین صرف ایک مثال بن کے رہ گئے۔
اس وقت ملک کو اس آرٹیکل کی عملی شکل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر پی ٹی آئ کے قاسم سوری نے آئینی مگر غیر ضروری اقدام ، عدم اعتماد کی ووٹنگ کو ڈسمس کیا تھا۔ قاسم سوری نے آرٹیکل 5 کاحوالہ دیا تھا۔ اس آرٹیکل میں یہ واضع کیا گیا ہے کہ ریاست پاکستان سے وفاداری ہر پاکستانی کا فرض ہے۔
قاسم سوری نے جو کیا وہ غیر آئینی تھا لیکن آج آرٹیکل 5 کی بہت ضرورت ہے ۔ اس وقت ملک کا مفاد کون دیکھ رہا ہے ؟ ملک کو کیا چاہیے؟ مظبوط معیشت اور عوام کی رائے ،ملک کی ترقی ملک سے وفا داری ہے۔ ایک بوری آٹے کے لیے جان نا دینی پڑے،کسی کو بھوک سے بچوں کو نہ مارنا پڑے یہ ملک سے وفا داری ہے۔الیکشن سب سے پہلے عوام کا حق ہے۔
ترکیہ میں زلزلے سے 15 ملین لوگ متاثر ہوئے، جو کہ ترکیہ کےُ18% عوام ہیں۔ 50,000سے زائد لوگ مارے گئے لیکن پھر بھی 14 مئ 2023 کو ترکیہ میں عام انتخابات ہو رہے ہیں ۔اگر ان حالات میں ترکیہ میں انتخابات ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟پاکستان میں بدقسمتی سے ہر فرد ہر ادارے کی اپنی اپنی ریڈ لائن ہے ہے لیکن پاکستان کی ریڈ لائن کیا ہے یہ واضح نہیں ہے۔