جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ ہاؤس کی تقریب میں کیوں شریک ہوئے؟

پیر 10 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

10 اپریل کو آئین پاکستان 1973 کے 50 سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ ہاؤس میں گولڈن جوبلی کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت تمام ججز کو مدعو کیا گیا تھا اور ترجمان قومی اسمبلی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

تقریب کے انعقاد کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں مشاورتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے تقریب کے تمام تر انتظامات مکمل کیے۔

26 رکنی مشاورتی کمیٹی میں اراکین پارلیمنٹ کامران مرتضیٰ، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، فرحت اللہ بابر، انجینئر صابر حسین قائم خانی، آسیہ عظیم، رمیش کمار وانکوانی، ظفر اللہ خان سمیت قومی اسمبلی اور متعلقہ محکموں کے افسران شامل تھے۔

کنوینیئر مشاورتی کمیٹی سینیٹر میاں رضا ربانی نے آئین 1973 کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں شرکت کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے سپریم کورٹ کے تمام ججز، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، سینیئر وکلا سمیت دیگر کو دعوت نامہ بھیجا۔

پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اسمبلی ہال میں آئین 1973 کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کنونشن کے انعقاد کی قرارداد منظور کی جس کے بعد قومی اسمبلی کے ہال میں تقریب کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کی منظوری کے بعد یہ ہال ایک عام ہال کی حیثیت اختیار کر گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے واضح بھی کیا کہ یہ نہ تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے اور نہ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس ہے بلکہ یہ محض ایک کنونشن ہے۔ اس موقع پر اراکین پارلیمنٹ کی نشستوں پر وائس چانسلرز اور سول سوسائٹی سمیت سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بیٹھے دیکھا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قومی اسمبلی ہال میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر منعقدہ اس تقریب میں اسپیکر قومی اسمبلی کی دعوت پر شریک ہوئے ہیں جبکہ دیگر ججز مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکے۔

قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں خطاب کرنے والے پہلے جج نہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور اس وقت کے چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لیے 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو سینیٹ کی فل ہاؤس کمیٹی کے اجلاس میں مدعو کیا تھا اور انہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 نومبر 2015 کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ سینیٹ کے تمام ارکان پر مشتمل کمیٹی سے خطاب کیا تھا۔

2015 میں چیف جسٹس کا پارلیمنٹ میں خطاب

3نومبر 2015 کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے قائم سینیٹ کے فل ہاؤس پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس ہی میں منعقد ہوا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا تھا کہ قانون پر عملدرآمد نہ ہو رہا ہو تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ ملک کا مستقبل عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی میں ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا تھا کہ آئین اداروں اور عہدوں کے اختیارات کا تعین کرتا ہے، آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں، ہم سب کسی فرد نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں اور قانون کی حکمرانی کے بغیر پائیدار ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جبکہ منتخب نمائندے عوام کوجواب دہ ہیں اور ریاست کی پالیسی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کرپشن روکنے کے لیے کردار ادا کرے۔ بدانتظامی، بدعنوانی اور مجرمانہ سوچ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ عوام کو نظر آنا چاہیے کہ قانون سے کوئی بالا نہیں۔

قومی آئینی کنونشن پارلیمانی اجلاس نہیں تھا : ترجمان قومی اسمبلی

قومی اسمبلی کے ترجمان کے مطابق پیر کے روز ہونے والا قومی آئینی کنونشن کوئی پارلیمانی اجلاس نہیں تھا بلکہ آئین پاکستان کے 50 برس مکمل ہونے پر قومی اسمبلی میں گولڈن جوبلی کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق قومی آئینی کنونشن ان تقریبات کا ایک حصہ تھا جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے شرکت کی۔

انہوں نے بتایا کہ کنونشن میں 120 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پارلیمان میں  تشریف لائے جبکہ طلبا، معذور افراد، ڈاکٹرز، وکلاء اور سماجی شخصیات کی ایک بڑی تعداد بھی ان تقریبات میں شامل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس قومی سطح کے اجلاس میں مناسب نمائندگی دی گئی۔

ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور صوبائی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے نمائندگان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیر اسمبلی کے ممبران بھی اس تقریب کا حصہ تھے۔

ترجمان کے مطابق اسی جذبے کے تحت چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام معزز ججوں کو مدعو کیا گیا جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے ججوں کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ قومی آئینی کنونشن کسی بھی طرح سے  پارلیمانی اجلاس نہیں تھا اس لیے اس تقریب سے متعلق خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے  سے گریز کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp