وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ آج کی قانون سازی کے بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت کم ہوئی ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ماضی میں فوجی سربراہان 11 سال اور پھر 6،6 سال تک عہدوں پر رہے۔
یہ بھی پڑھیں قومی اسمبلی: سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کی تعداد بڑھانے، فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کے بل منظور
انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان کو اگر آج ہونے والی قانون سازی پر اعتراض ہے تو یہ ان کا حق ہے اور ان کے اختلاف رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہاکہ اگر اپوزیشن کو حکومت کی قانون سازی کی اتفاق نہیں تھا تو وہ آج اپنی ترامیم پیش کرتے، اسپیکر نے کہاکہ پہلے وزیر قانون کی بات سنیں بعد میں آپ کو موقع دیا جائے گا مگر یہ بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھے۔
انہوں نے کہاکہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ الیکشن ہارنے کے باوجود 4 سال تک اقتدار میں رہے۔
انسداد دہشتگردی ترمیمی بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے، جبکہ بلوچستان میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے، اس لیے یہ قانون سازی وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ اس بل کو ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے قومی اسمبلی میں 6 اہم بل پاس کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد چیف جسٹس سمیت 34 کردی ہے، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد کو 9 سے بڑھا کر 12 کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے، جبکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق چیف جسٹس، سینیئر جج اور آئینی بینچ کا سربراہ ججز کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
ایوان میں قانون سازی کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑی گئیں، اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور پی ٹی آئی کے شاہد خٹک کے درمیان بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیں آج جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا، پی ٹی آئی کا قانون سازی پر ردعمل
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آج ہونے والی قانون سازی کو مسترد کرتے ہوئے اسے جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔