سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافے، فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے کے بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور کرلیے گئے، ایوان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ترمیمی بل کی بھی منظوری دے دی۔
پریذائیڈنگ آفیسر عرفان صدیقی کی زیرصدارت ایوان بالا (سینیٹ) کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کرنے کا بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں قومی اسمبلی: سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کی تعداد بڑھانے، فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کے بل منظور
اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں اور ایوان میں نامنظور نامنظور کی نعرے بازی بھی کی گئی۔
اس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا جسے اکثریتی رائے سے منظور کرلیا گیا، اپوزیشن نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں کی گئی ترمیم کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ، سینیئر ترین جج اور آئینی بینچ کا سربراہ ججز کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
وزیر قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کا بل ایوان میں پیش کیا، جس کی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دے دی۔
دریں اثنا وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ 1952 میں بھی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کیا، اس کے علاوہ پاکستان ایئرفورس ایکٹ 1952، جبکہ پاکستان نیوی ایکٹ 1961 میں ترمیم کے بل بھی پیش کیے گئے جو کثرت رائے سے منظور کرلیے گئے۔
ان بلوں کی منظوری کے بعد تمام فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور ججوں کی تعداد بڑھانے کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟
واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت نے یہ بل قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کروائے ہیں، اور اس دوران وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہد خٹک میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔