ڈیل اور ڈھیل، پاکستان کی سیاست میں یہ دونوں لفظ کئی دہائیوں سے سیاست داںوں اور عوام کی زبان زد عام ہیں۔ جب بھی ایک پارٹی کو حکومت ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ایک ڈیل کے تحت یہ حکومت بنائی ہے۔ کوئی سیاستدان کرپشن کے الزامات پر جیل جاتا ہے اور پھر جب اسے رہائی ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ کسی ڈیل کے نتیجے میں اسے رہائی ملی ہے۔ سیاستدان کی ملک بدری اور پھر واپسی کو بھی ڈیل قرار دیا جاتا ہے۔
آج کل پاکستان تحریک انصاف زیر عتاب ہے۔ پارٹی کے جو رہنما جیلوں سے رہا ہو رہے ہیں ، ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کسی معاہدے یا ڈیل کرکے باہر آئے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی زوجہ محترمہ بشریٰ بی بی کی اچانک جیل سے رہائی کو بھی کسی ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اب جلد عمران خان جیل سے باہر آنے والے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے مقتدرہ سے بات چیت کرکے بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنائی اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیے بغیر علی امین گنڈاپور کا غائب ہونا اور پھر صوبائی اسمبلی میں نمودار ہونا بھی مشکوک قرار دیا گیا جس کے بعد بشریٰ بی بی کی رہائی سے لوگوں نے اخذ کرنا شروع کر دیا کہ اسی وجہ سے انہوں نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔
سیاست دان اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ملک میں سیاست کرنی ہے تو کوئی نہ کوئی ڈیل کرنا پڑتی ہے۔ جب سے بشریٰ بی بی رہا ہو کر آئی ہیں لوگوں کی نظریں عمران خان پر لگ گئی کہ وہ اپنا بیانیہ تبدیل کرتے ہیں یا کچھ نرمی لاتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے جب بھی کوئی سیاستدان گرفتار ہوتا ہے تو رہائی پر یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ کسی بیک ڈور رابطوں کے بعد اپنے خلاف کیسوں سے نجات پا سکا ہے۔
جیل میں قید عمران خان بھی اپنے بیانات میں کھلے عام کہتے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی سے بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ سیاستدانوں یا کسی جماعت سے مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اختیار صرف پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ اور انہی سے بات چیت کرکے وہ رہا ہو کر اپنے خلاف کیسسز ختم کروا سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز اگرچہ بڑے اعتماد کے ساتھ حکومتی معاملات چلا رہی ہے کہ انہیں طاقتور حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک یا تو کسی حکومت نے مدت پوری نہیں یا پھر وزیراعظم پانچ سال پورے نہیں کر سکا۔ عمران خان اس کی سب سے بڑی مثال ہیں کہ وہ ایک صٖفحے پر رہتے ہوئی بھی عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔
اب بشریٰ بی بی کی رہائی نے حکومتی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا کہ ان کی رہائی کے بعد کیا ہوگا۔ کیا اگلے مرحلے میں عمران خان بھی باہر ہوں گے؟ اگر وہ باہر آتے ہیں تو کیا وہ حکومت کو چلنے دیں گے۔ 26 ویں ترمیم کے باوجود حکومت کو عدلیہ کی طرف سے ڈر لگا ہے کہ اگر وہ الیکشن نتائج کی گنتی کے کیس کی طرف جاتی ہے تو پھر کیا بنے گا کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی مخصوص نشستوں پر فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں سنا چکی ہے۔
دوسری طرف بعض سیاست دان آئے روز بیان دیتے ہیں کہ یہ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ مگر جب فیصل واوڈا یا ایسے سیاستدان جن کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سے ڈھکے چھپے نہیں بیان دیں کہ اس حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں تو فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس حکومت سے بالکل مطمئن ہے تو پھر ایسے سیاستدان یہ بیانات کیوں دیتے ہیں؟