آئین اور قانون کسی بھی ریاست کے سب سے مقدم ستون ہوتے ہیں۔ ریاستوں کی خوشحالی بھی انہی ستونوں کی مضبوطی کے مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جن ریاستوں میں آئین اور قانون کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھا جاتا ہے، خوشحالی ان سے منہ موڑ لیتی ہے۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال ہماری اپنی ہے۔ خوشحالی اور ہم الگ الگ راستوں پر گامزن رہے ہیں۔
ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ممالک سپر پاورز کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ ہم ایک ایک پائی کے محتاج ہیں۔ مجموعی طور پر جہاں ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہیں خیبرپختونخوا کے حالات تو ناقابلِ علاج ہوتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے ان سرکاری اہلکاروں کے لیے ترقی اور نقد انعامات کا اعلان کیا جو تحریکِ انصاف کے حالیہ احتجاج میں نہ صرف شریک ہوئے تھے بلکہ گرفتار بھی ہوئے تھے۔
اس طرح کے انعامات ریاستوں کی سطح پر ضرور دیے جاتے ہیں مگر تب جب لڑنے والے سپاہی کسی دوسری ریاست کے ساتھ جنگ سے لوٹ آئے ہوں جبکہ یہاں حد ہی ہوگئی۔
اس حوالے سے بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ علی امین صاحب کو یہ خصوصی رعایت خصوصی طور پر دی گئی ہے کیونکہ اس وقت موصوف کی جماعت کے اندر پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ پختونخوا کے ساتھ ایک اور زیادتی ہوگی کیونکہ اس سے صوبے کے بگڑتے ہوئے انتظامی معاملات مزید خراب ہوں گے۔
اس وقت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ایسے میں صوبائی حکومت کا بنیادی کام اپنے پارلیمنٹرینز کی ہر طرح کی خواہشات کو پورا کرنا رہ گیا ہے، چاہے وہ غیر قانونی ہی کیوں نہ ہو۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی یکے بعد دیگرے حکومتوں کے دوران یہاں کے تعلیمی ادارے بدترین حالات کے شکار ہوئے ہیں۔ اس وقت خیبرپختونخوا کی تمام یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں، یہاں تک کہ یونیورسٹی ملازمین کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہیں۔ حیران کُن طور پر 30 میں سے 24 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر سے محروم ہیں۔ ایسے ہی حالات کالجوں کے ہیں جبکہ ان دنوں ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کو نشانے پر لیا گیا ہے۔
نئی صوبائی حکومت کے آنے کے بعد صوبے کے اکثر ہائی و ہائیر سیکنڈری سکولوں کے ہیڈماسٹرز کو تبدیل کرکے ان کی جگہ غیر قانونی تعیناتیاں کی گئیں۔ جن کی تفصیل جو راقم کو بمع ثبوت ملی ہیں کچھ یوں ہے۔
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول علیزئی پر محترمہ شہنیل سجاد (ایس ایس اکنامکس) کی رانگ پوسٹنگ ہوئی ہے جبکہ 26 ستمبر 2024 کو مقابلے کے امتحان میں مس زاہدہ کا سلیکش ہوا تھا۔
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول مانسہرہ پر مس انیسہ زیب )ایس ایس زولوجی( کی رانگ پوسٹنگ ہوئی ہے جبکہ اسی پوسٹ کے لیے 26 ستمبر 2024 کو مس سعدیہ ضیاء مقابلے کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرکے تعینات ہوئی تھی۔
گورنمنٹ ہائی سکول تھہیم آباد ڈی آئی خان پر بھی حال ہی میں کلیم اللہ (ایس ایس اکنامکس) کی تعیناتی ہوئی ہے اور اس عہدے کے اہل عہدیدار کو ہوا میں لٹکایا گیا ہے۔
اسی طرح ثناء اللہ (ایس ایس اکنامکس) کو گورنمنٹ ہائی سکول بند کورائی کا ہیڈ ماسٹر تعینات کیا گیا۔
خالد سعید اکبر (ایس ایس) کو گورنمنٹ ہائی سکول روڈی خیل کا ہیڈماسٹر لگا دیا گیا جبکہ عبد الرحمن (آئی پی ای) کو گورنمنٹ ہائی سکول ملانا کا ہیڈ ماسٹر لگا دیا گیا۔
ان تمام پوسٹنگ میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہاں کے ہیڈماسٹرز حال ہی میں مقابلوں کے امتحانات پاس کرکے منتخب ہوئے تھے۔ محمد طارق محسود گورنمنٹ ہائی سکول گرہ شہباز ٹانک پر چند ماہ قبل تعینات ہوئے تھے۔ محمد طارق نے پورے صوبے میں مقابلے کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور تعیناتی کے بعد سکول میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے غیر قانونی تبادلے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے صوبائی انتظامیہ کو درخواست بھیجی کہ اس تبادلے کو روکا جائے لیکن یہاں کے پی ٹی آئی ایم این اے داور خان کنڈی نے اپنے رشتہ دار کو جانے نہیں دیا۔
سروس رولز 2014 کے مطابق کسی بھی عہدیدار کو بغیر کسی جرم کے 3 سال سے کم عرصے میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جبکہ میرٹ کے مطابق ہیڈ ماسٹرز کی پوسٹنگ حاصل کرنے والوں کی اکثریت نے محض چند ماہ پہلے ہی اپنے عہدوں کا چارج سنبھالا تھا اور ان میں سے کسی پر بھی کوئی الزام نہیں لگا تھا۔ ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے عہدیداران کے مطابق ان کے پاس اسی طرح کے درجنوں مزید تعیناتیوں کی تفصیل موجود ہے اور اس حوالے سے ہر قانونی فورم پر دستک دی گئی لیکن سنوائی نہیں ہورہی۔
پاکستان سپریم کورٹ کے حکم 755SCMR 1999 کے مطابق کسی بھی سول سرونٹ کو اس کے کیڈر کے باہر تعینات کرنا غیر قانونی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے SCMR325 2003 کے فیصلے کے مطابق کسی بھی سول سرونٹ کو سیاسی بنیاد پر ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔
مندرجہ بالا تعیناتیوں میں جہاں ایک طرف قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے وہیں سکولوں سے اسبجیکٹ اسپیشلسٹ چھینے گئے ہیں۔ اس سب اکھاڑ پچھاڑ کا فائدہ تو خدا جانے کون اٹھا رہا ہے مگر نقصان بہرحال ان سکولوں کے بچے اٹھا رہے ہیں، خیبر پختونخوا اٹھا رہا ہے، پاکستان اٹھا رہا ہے۔