سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے حالیہ تشکیل شدہ بینچز میں ان کے کچھ فیصلوں سے اختلاف رکھنے والے ججز کی بھی شمولیت سے 2مختلف قسم کے تاثر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
ایک تو یہ کہ وہ فیصلہ چیف جسٹس کی جانب سے مصالحت کی جانب اٹھایا گیا ایک قدم ہے جبکہ دوسرے تاثر میں ایک خدشہ ہے کہ چونکہ ان بینچز میں متضاد رائے رکھنے والے ججز موجود ہیں، اس لیے فیصلہ سازی کا عمل متاثر بھی ہوسکتا ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ میں ججز مبینہ طور پر دو مختلف سوچ کے حامل گروپس کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے اور اس سے قبل چیف جسٹس کے بینچ سازی کے اختیارات پر کافی تنقید ہوتی رہی ہے۔ 10اپریل سے شروع ہونے والے ہفتے میں دونوں اسکول آف تھاٹس سے تعلق رکھنے والے ججز کو ملا کر بینچز بنائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کے 3رکنی بینچ ون پر کافی اعتراض کیا جاتا رہا تھا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پچھلے کافی عرصے سے مستقل چلے آرہے تھے۔ لیکن اس بار چیف جسٹس کے بینچ میں ان کے ساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ یہ دونوں وہی ججز ہیں جنہوں نے پنجاب الیکشن التوا کیس میں چیف جسٹس کے ازخود اختیارات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے درخواست مسترد کر دی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے حالیہ فیصلے میں چیف جسٹس پر کافی تنقید کی تھی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے 3ممبر بینچ کے بارے میں ایک خاص اصطلاح ’ہم خیال بینچ‘ وجود میں آئی۔ جبکہ یہ تاثر بھی عام تھا کہ چیف جسٹس صاحب کے بینچ میں یہی 2ججز ہمیشہ موجود رہتے ہیں لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو بینچ میں شامل کر کے شاید چیف جسٹس صاحب نے اس تاثر کی بھی نفی کی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ادوار میں چیف جسٹس کے ریگولر بینچ میں ججز عموماً کم ہی بدلتے دیکھے گئے۔
ریگولر بینچ ٹو میں اس بار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد علی مظہر کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس اور ان کی پالیسیوں سے شدید اختلافات رہے ہیں۔
الیکشن التوا کیس میں جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس اختیارات سننے پر حکم امتناع جاری کیا اور جس طرح سپریم کورٹ رجسٹرار کے ذریعے اس حکم امتناع کو غیر موثر کیا گیا، یہ چیز دونوں معزز جج صاحبان کے درمیان اختلافات کی بہت واضح تصویر پیش کرتی ہے۔
ریگولر بینچ ٹو کے دوسرے رکن جسٹس محمد علی مظہر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا مبینہ تعلق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے گروپ سے ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر اس 6رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے اس کیس کو خارج کر دیا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس اختیارات پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔
ریگولر بینچ 3اور ۴میں موجود ججز کے درمیان بہت واضح اختلاف کی مثالیں موجود نہیں لیکن ریگولر بینچ فور کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس شاہد وحید اس بینچ کا حصہ ہیں اور مبینہ طور پر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلوں اور سوچ میں بہت اختلاف ہے۔ بینچ فائیو میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ اے ملک شامل ہیں اور وہاں بھی نظریاتی تفریق کا تاثر موجود ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن التوا کیس میں کئی بار یقین دہانی کروائی کہ ان کے ساتھی ججوں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور میڈیا میں موجود تاثر بالکل غلط ہے۔ اس کے باوجود ملک کے سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات اور بینچ فکسیشن پر کافی اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔
متعدد سیاسی نوعیت کے مقدمات میں فریقین بنچوں کی تشکیل پر اعتراضات اٹھاتے رہے لیکن چیف جسٹس اس تاثر کی ہمیشہ نفی کرتے رہے ، تاہم اس کے بعد کچھ ایسے فیصلے آئے جن سے سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان اختلافات واضح طور پر دستاویزی شکل میں سامنے آ گئے۔