ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے، قاعدے سے یہ وقت ان کی شان میں خیر مقدمی قصیدہ پیش کرنے کا ہے۔ یہ فرض کفایہ بھی ادا کیا جائے گا لیکن سازندوں پر لازم ہے کہ وہ راگ درباری شروع کرنے سے قبل اپنے طبلے سارنگیاں درست کرلیں جیسے کہ وہ ہمیشہ کیا کرتے ہیں۔
ایک اچھے راگ درباری کی خوبی یہی ہونی چاہیے کہ شہنشاہ معظم کی شان و شوکت میں ان فیوض و برکات کو موتیوں کی طرح چن لیا جائے جن سے رعایا کو فیض یاب ہونا ہے یا ہوتے رہنا ہے۔ شہنشاہ معظم اور ان کے برتر و مصفا خون سے رعایا کا کیا مقابلہ لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس میں کچھ مماثلت بھی ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی۔
سوال یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اگر دیوار پر لکھی تھی تو رائے عامہ کے جائزے ہمیں گمراہ کیوں کرتے رہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ان جائزوں نے ہمیں پہلی بار گمراہ نہیں کیا۔ ٹرمپ کی پہلی فتح بھی ایسی ہی تھی۔ 2016 کے جائزوں میں بھی کسی اور کی کامیابی کی خبر تھی لیکن حقیقت مختلف نکلی۔ اس بار بھی یہی ہوا لیکن اس بار اہل دانش چوکنے تھے، انہوں نے راز کی بات معلوم کرنے میں دیر نہیں کی۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نوجوانوں کی مرہون منت ہے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے فخر اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی نوجوانوں کا انداز فکر بالکل یہی ہے اور وہ یہاں بھی امریکا کی طرح کسی روایتی سیاست دان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالنے کے بجائے ایک غیر روایتی ہیرو کو پسند کرتے ہیں اور اس کے گن گاتے ہیں جو اتفاق سے اپنی خوبیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے نوجوانوں کی ایک جیسی سوچ میں سعادت کے بہت سے پہلو چھپے ہیں لیکن خطے اور فاصلے کے باوصف ان میں ذرا فرق بھی ہے۔
ماہرین سماجیات کا بیان ہے کہ امریکی نوجوان بڑے کایاں نکلے۔ سروے کرنے والوں کو انہوں نے ہوا بھی نہیں لگنے دی اور ووٹ ٹرمپ کو دے ڈالے۔ ان کے مقابلے میں ہمارے نوجوان سادہ دل ہیں امریکی نوجوانوں جیسی چوکسی سے محروم ہیں، وہ جسے پسند کرتے ہیں، اس کے نام کا ڈنکا بھی بجاتے ہیں۔ یہاں تک تو معاملہ سادہ ہے لیکن اس سے آگے دوچار مشکل مقامات آتے ہیں۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ امریکی نوجوان جانتے ہیں کہ ان کا سیاسی فیصلہ ایسا ہے جس کے بیان میں ان کے لیے سبکی کا پہلو موجود تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے دل کی بات بیان نہیں کی، وہ کیا جو کرنا چاہیے تھا، انہیں معلوم ہے کہ سیاسی اعتبار ان کا انتخاب موزوں نہیں۔ اس کے نتیجے میں انہیں اور ان کے ملک کے لیے مسائل ہوسکتے ہیں لیکن انہیں تو وہ نغمہ لبھاتا ہے جس میں ان کے انتخاب کے ہم عصروں کی مذمت کرنے کے ساتھ عظمت و سربلندی کے کچھ خواب دکھائے گئے ہیں۔ بس، وہ ان ہی سہانے خوابوں کے سیلاب میں بہتے چلے گئے اور دل کی بات انہوں نے اس لیے چھپائے رکھی کہ مبادا انہیں کوئی ٹوک نہ دے اور یہ نہ کہہ دے کہ جانتے بوجھتے کیوں غلط کام کرتے ہو۔ اس کیفیت کو بعض ماہرین ٹرانس کی کیفیت میں بہک جانے سے تعبیر کرتے ہیں تو کچھ اسے منافقت کا نام دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی نوجوان مخلص اور سادہ دل ہیں جو ان کے دل میں ہے، وہی زباں پر بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ امریکی نوجوانوں کی طرح یہ کیفیت جانتے بوجھتے مرنے والی نہیں بلکہ پائپ پائڈر کے سحر میں آکر دائیں بائیں سے بے نیازی کے عالم میں سیدھا گڑھے میں جا گرنے والی ہے۔ خیر گڑھے میں ہم گریں یا وہ گریں، اس میں ہمارے لیے تو اونچی ذات کے ساتھ یہ ذرا سی مماثلت ہی باعث افتخار ہے۔ ہم اسی پر خوش ہیں اور نازاں ہیں۔ یہ ہوا راگ درباری کا مکھڑا، راگ ابھی باقی ہے۔
دکھوں کی ماری رعایا کا فرض اولین ہے کہ وہ جہاں پناہ کی سربلندی اور اقبال مندی کے لیے دعا گو رہے۔ پوری رعایا یہ فریضہ بلا جبر و اکراہ انجام دیتی ہے لیکن اس کام کے لیے اس نے چند دانش مند اور سمجھ دار لوگ بھی مخصوص کر رکھے ہیں جو ہماری پسماندہ بستی سے لے کر ولایت تک پھیلے ہوئے ہیں جیسے یہاں نک سک سے درست لہجے والے سلمان اکرم راجہ ہیں اور ولایت شریف میں طبقہ شرفا کے نوخیز نونہال ذلفی بخاری۔ ذلفی سیدھے سادے نوجوان ہیں جن کے ذہن اور زبان میں کوئی الٹ پھیر نہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ جہاں پناہ کے صہیونی داماد جیرڈ کشنز سے ان کا یارانہ ہی نہیں راز و نیاز کا معاملہ ہے، وہ اسے کہنے والے ہیں کہ جیسے ہی بادشاہ جہاں کے سر پر تاج سجے، وہ ان کے کان میں پھونک ماریں کہ اُدھر پاکستان جیسے کسی عقوبت خانے میں ان کا جگری یار پڑا ہے، وہ فی الفور اس کی رہائی کا حکم صادر فرمائیں تاکہ وہ سریر آرائے سلطنت ہوکر ایک بار پھر آپ کی خدمت بجا لائے۔ ذلفی انہیں بتائیں گے کہ ما بہ دولت کو یاد ہوگا 2019 میں جب آپ کا سکہ رواں تھا، آپ نے اپنے اس جگری کو شرف باریابی بخشا تھا۔ اس نے واپس لوٹنے کے بعد دو ہفتے کے اندر اندر ہی کشمیر پر آپ کے عظیم ثالثی منصوبے پر عملدرآمد کرا دیا تھا۔ ادھر آپ کے ہاؤڈی مودی نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا تیا پانچا کیا، ادھر آپ کے دوست نے ذرا سی چوں چرا کیے بغیر چپ سادھ لی۔ اب راوی چین لکھتا ہے۔ آپ اپنے دوست کی دست گیری فرمائیں، وہ اس بار بھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ وہ آپ کے ایران توران حتیٰ کہ چین جیسے منصوبوں کی تکمیل میں بھی جو بن پڑا کر گزرے گا۔ ادھر سراپا سپاس اور اس عہد کے ابو الفضل اور فیضی نے بھی قصیدہ پڑھا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کے پیش رو از قسم جوبائیڈن وغیرہ مکار اور بدنیت پاکستانیوں کی سازشوں کا شکار ہو گئے تھے لیکن سراپا عقل و دانش ڈونلڈ ٹرمپ کسی سازش میں نہیں آئیں گے۔ دانش مند سلمان اکرم راجہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی زیادہ کچھ کہنے اور سادہ لوح ذلفی کی طرح طویل داد فریاد سے لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملتا ہے۔ بات کہہ دی گئی، فریاد کردی گئی، اب ذلفی بخاری جیسے سادہ لوح اور سلمان اکرم راجہ جیسے سمجھ دار یعنی سب ہی نتیجے کے انتظار میں ہیں۔
انتظار کی اس کیفیت میں دانش علمی و روحانی سے مالامال مرشد کو سجھایا گیا کہ تمہارے ابو الفضل اور فیضی تمھیں مروائے دیتے ہیں، اس لیے سمجھداری کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا دل پر جبر کرکے انہوں نے سمجھداری کا راستہ پکڑا ہے اور اعلان کردیا ہے کہ انہیں اب کسی کی سفارش مطلوب نہیں۔ اب سلو، ذلفی اپنے مشن میں آگے بڑھتے جاتے ہیں اور پائپ پائڈر کی دھن از قسم حقیقی آزادی میں مدہوش پیروکار کسی چمتکار کے انتظار میں ہیں۔ اللہ بس باقی ہوس۔
تو اے قارئین با تمکین!
ہمارے سازندے اپنے ساز رواں کرچکے۔ اب سماعت فرمائیے، راگ درباری شروع ہوتا ہے۔