حکومت پاکستان نے مشکل معاشی حالات کے پیش نظر معیشت پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا، خزانے پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کی باتیں 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم اب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا۔
حکومت نے گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک مرتبہ بولی کا بھی انعقاد کیا تاہم خریداری میں دلچسپی لینے والی صرف ایک کمپنی نے بولی میں حصہ لیا اور 10 ارب روپے کی بولی لگائی، نجکاری کمیشن نے چونکہ پی آئی اے کی ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی اس لیے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید کتنا نقصان ہوگا؟
نجی کمپنیوں کی جانب سے عدم دلچسپی اور کم بولی لگانے کے بعد پہلے خیبرپختونخوا حکومت اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی پی آئی اے کو خرید کر ایئرپنجاب کے نام سے چلانے کی خواہش کا اظہار کیا جس کی نواز شریف نے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مریم نواز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یا تو پی آئی اے کو خرید لیں یا نئی ایئرلائن بھی شروع کرسکتی ہیں۔
تاہم نواز شریف کے اس بیان کے اگلے ہی روز سینیئر وزیر پنجاب حکومت مریم اورنگزیب نے کہاکہ اس خبر میں کوئی حقیقت نہیں کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خرید رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کے بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ نے وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ ہم پی آئی اے کی نیلامی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ ہم نجی کمپنی کی 10 ارب روپے کی بولی سے زیادہ قیمت پر قومی ایئرلائن کو خرید لیں گے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان واضح کرچکے ہیں ہم پی آئی اے کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت نہیں کرسکتے، ہماری ذمے داری ہے کہ ہم قومی ایئرلائن کو فروخت نہیں ٹھیک کریں، میری تو خواہش ہے کہ صوبے مل کر پی آئی اے کے شیئرز خریدیں اور اس کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ پی آئی اے کی کامیاب بولی نہیں ہوسکی، تو اب ایسی صورتحال میں قومی ایئرلائن کا مستقبل کیا ہوگا۔
’صوبوں کی جانب سے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار سیاسی بیان تھا‘
سول ایوی ایشن اور پی آئی اے سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی طارق عبد الحسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صوبوں کی جانب سے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرنا صرف ایک سیاسی بیان تھا، اس وقت قومی ایئرلائن کو چلانا ایک انتہائی ماہر سول ایوی ایشن کمپنی کا کام ہے یا کسی ایسی ایئر لائن کا کام ہے جو 100 فیصد اس کام کو سمجھتی ہو۔
انہوں نے کہاکہ جو صوبے اپنے عوام کے لیے صاف پانی، صحت اور تعلیم کے معیار کو بہتر نہیں رکھ سکتے وہ پی آئی اے کو کسی صورت نہیں چلا سکتے جبکہ کوئی کاروباری شخصیت یا بیوروکریٹ بھی ایئرلائن کو نہیں چلا سکتا۔
طارق عبد الحسن نے کہاکہ چونکہ پی آئی اے کی نجکاری کا اصولی فیصلہ ہوچکا تھا، اس لیے شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت، اس کے بعد نگراں حکومت اور اب دوبارہ اتحادی حکومت نے قومی ایئرلائن کے معاملات پر کوئی توجہ نہیں دی، جس کے باعث بہت سے طیارے گراؤنڈ ہوچکے ہیں۔
’صرف کچھ رقم کے خرچ سے طیاروں کو مرمت کروا کر چلایا جا سکتا ہے‘
انہوں نے کہاکہ صرف کچھ رقم کے خرچ سے طیاروں کو مرمت کروا کر چلایا جا سکتا ہے، حکومتی عدم توجہ کے باعث پی آئی اے انتظامی طور پر صحیح نہیں چل رہی۔
طارق عبد الحسن نے کہاکہ پی آئی اے اب ایک انتہائی منافع بخش ادارہ بن چکا ہے، مئی سے اب تک قومی ایئرلائن کا کل منافع 3 ارب روپے سے زیادہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو کوئی بین الاقوامی کمپنی بھی خرید سکتی ہے، حکومت کو اس وقت سوچنا چاہیے کہ وہ خود کچھ انتظامی معاملات بہتر کرکے اس قومی اثاثے کو اپنے پاس رکھے اور منافع حاصل کرے یا پھر معاملات پر توجہ دے کر کچھ بہتری لائی جائے تاکہ بین الاقوامی کمپنیاں بھی پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کریں اور بہت اچھی رقم میں پی آئی اے فروخت ہو جائے۔
’پی آئی اے کی نجکاری اب جلد ہوتی نظر نہیں آرہی‘
پی آئی اے کی نجکاری پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شعیب نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایک ہی کمپنی کی جانب سے بولی میں حصہ لینے اور صرف 10 ارب روپے کی بولی لگانے سے پی آئی اے کی نجکاری اب جلد ہوتی تو نظر نہیں آرہی۔
انہوں نے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری کا حتمی فیصلہ کابینہ کی نجکاری کمیٹی نے کرنا ہے، کابینہ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوتا ہے جبکہ اس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر نجکاری عبدالعلیم خان، وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر، وزیر برائے ایوی ایشن خواجہ آصف، وزیر توانائی اویس لغاری بھی اس میں شریک ہوتے ہیں، جو کہ ممبر ہیں۔
’حکومت پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ میں چلانے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘
شعیب نظامی کے مطابق وزارت نجکاری پی آئی اے کو اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ میں چلانے کا پلان کررہی ہے، اس سلسلے میں ایک کمپنی بنائی جائے گی جو پی آئی اے کے مالی معاملات اور انتظامی معاملات کو سنبھالے گی، جبکہ حکومت پاکستان کے پاس 25 سے 30 فیصد شیئرز ہوں گے لیکن اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
یہ بھی پڑھیں پی آئی اے کی خریداری: غیرملکی پاکستانی گروپ نے حکومت کو 100 بلین روپے کی پیشکش کردی
انہوں نے کہاکہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے پی آئی اے کی 125 ارب روپے میں خریدنے کی جو پیشکش آئی ہے یہ کتنی سنجیدہ ہے اور اس پیشکش پر عمل درآمد کرنے میں کون کون سے قانونی نکات واضح کرنا ہوں گے، اس پر باقاعدہ ایک حکمت عملی بنے گی جسے کابینہ کی نجکاری کمیٹی دیکھے گی اور منظوری کے بعد پھر اس 125 ارب روپے کی بولی کو حتمی شکل دی جا سکے گی، لیکن اب تک حکومت پاکستان کی جانب سے اس 125 ارب روپے کی بولی کے موصول ہونے کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔