اسموگ کے اس موسم میں لاہور جیسے آلودہ ترین شہر میں بچوں کے ساتھ رہنے والے جانتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا چیلنج ہے اور انسانوں کو کس طرح سے متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک ہیلتھ ایمرجنسی ہے جس کا سامنا صرف لاہور یا پاکستان کو ہی نہیں، پورے جنوبی ایشیا کو ہے کیونکہ یہ دھواں ہر سال اس خطے کے 20 لاکھ افراد کی موت کا باعث بنتا ہے۔
اس سال تو سردی کے آنے سے بھی پہلے اسموگ نے لاہور میں ڈھیرے ڈال دیے تھے اور صورتحال یہ ہے کہ ہوائی آلودگی نے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس شدید آلودگی کے پیچھے کن عوامل کا ہاتھ ہے یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ حتیٰ کہ میری سات سالہ بیٹی بھی جان چکی ہے کہ کم کوالٹی کا ایندھن، گاڑیاں، فیکٹریاں، اور کھیتوں میں فٖصلوں کی باقیات کو جلانا اسموگ کا موجب بنتا ہے۔
موسمِ سرما کے شروع میں اسموگ میں یک دم اضافے کی وجہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کا عمل ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی کسانوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے گزشتہ ہفتے سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں ایک اہم تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں فصلوں کی باقیات کا اسموگ سے تعلق بیان کیے جانے کے علاوہ اس کے تدارک میں بیوروکریسی کے کردار پر بھی بحث کی گئی ہے۔
باقیات جلانے کے نقصانات
جنوبی ایشیا میں ہر سال سردیوں کے موسم میں کسان کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگا دیتے ہیں تاکہ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلد تیار کیا جا سکے۔ یہ عمل سستا اور تیز تر ہے، مگر اس کے نتیجے میں دھواں ہوا میں شامل ہو کر زہریلی گیسوں اور PM2.5 ذرات کی سطح کو خطرناک حد تک بڑھا دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، فصل جلانے سے جنوبی ایشیا کے کچھ علاقوں میں سردیوں کے دوران 60 فیصد تک فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی سانس کی بیماریوں، امراضِ قلب اور بچوں میں اموات کی شرح کو بڑھا رہی ہے۔
لاہور کی اسموگ کا بحران
لاہور، جو پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کے شکار شہروں میں شامل ہے، فصلوں کے جلانے اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے سردیوں میں اسموگ کا گڑھ بن جاتا ہے۔ فضائی معیار کا انڈیکس خطرناک حدوں کو چھونے لگتا ہے، اور حکومت عارضی حل، جیسے اسکولوں کی بندش یا ٹریفک کو محدود کرنا، اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ مگر یہ عارضی اقدامات مسئلے کی اصل جڑ پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔
بیوروکریٹس کا کردار
نیچر کی تحقیق نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح بیوروکریٹس کے زریعے فصل جلانے کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق میں سیٹلائٹ ڈیٹا اور دس سالہ معلومات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ جب بیوروکریٹس کو اپنے ضلع میں آلودگی کنٹرول نہ کرنے پر بازپرس کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ فصل جلانے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہوا کا رخ ان کے ضلع کی جانب ہوتا ہے تو فصل جلانے کے واقعات میں 14.5 فیصد کمی دیکھی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بیوروکریٹ نتائج کے ڈر سے کسانوں کو کھیتوں میں آگ لگانے سے باز رکھتے ہیں۔
لیکن جب ہوا کا رخ ان بیوروکریٹس کے ضلع کی جانب نہیں ہوتا تو وہ مؤثر اقدامات نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کے ضلع کے فضائی معیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا نتیجتاً وہاں کھیتوں میں آگ لگانے کے واقعات میں 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیوروکریٹس کا احتساب نہ ہونا بھی فضائی آلودگی اور اسموگ کے بڑے عوامل میں سے ایک ہے۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بیوروکریٹس کسانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو اس کا اثر پورے علاقے میں دیکھا جاتا ہے، اور دیگر کسان بھی فصل جلانے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر بیوروکریٹس ذمہ داریوں کو اس انداز میں ترتیب دیا جائے کہ ان کو اپنے علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلائے جانے پر محکماتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے، تو وہ ماحولیات کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حل کی راہیں: کیا کرنا چاہیے؟
پنجاب حکومت نے حالیہ برسوں میں فصل جلانے پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، مگر انہیں مزید مضبوط اور وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ نیچر کی اس تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت بیوروکریٹس کو ایسے پابند کرے کہ وہ اپنے علاقوں میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوں۔ اس میں شخصی ذمہ داری، مالی مراعات یا انعامات، ہدایات پر سختی سے عمل نہ کرنے پر سخت کاروائی وغیرہ جیسی حکمت عملی شامل ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے لیے فصل کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے ماحول دوست اور سستے متبادل بھی فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری کی مہمیں بھی شروع کرنی چاہئیں، تاکہ کسان خود اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکیں اور بہتر متبادل تلاش کریں۔
واضح رہے کہ لاہور کی اسموگ کا مسئلہ محض عارضی اقدامات سے حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے حکومت کو مؤثر پالیسی سازی، بیوروکریٹس کے کردار کو مضبوط بنانے، اور کسانوں کو معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہتر کوالٹی کا ایندھن مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ نیچر کی تحقیق سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ بیوروکریٹس کو درست ترغیبیں دی جائیں تو وہ فصلوں کی باقیات جلانے کے عمل کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جس سے نہ صرف لاہور بلکہ پورے پنجاب اور پاکستان کی فضا صاف اور صحت مند بنائی جا سکتی ہے۔