اقوام متحدہ کی افغانستان میں فلاحی کام روکنے کی دھمکی

بدھ 12 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ نے طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد کردہ مختلف پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات کے ذریعے عالمی ادارے کو افغانستان میں جاری فلاحی سرگرمیاں روکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق طالبان حکام نے سنہ 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں جن میں ان پر اعلیٰ تعلیم اور کئی سرکاری ملازمتوں کی ممانعت بھی شامل ہے۔ دسمبر میں انہوں نے افغان خواتین پر ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر پابندی لگا دی اور 4 اپریل کو اس پابندی کا دائرہ کار ملک بھر میں اقوام متحدہ کے دفاتر تک بھی بڑھا دیا تھا۔

منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ ’یہ پابندی اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے لہٰذا اقوام متحدہ اس کی تعمیل نہیں کر سکتا‘۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اس پابندی کے ذریعے طالبان کے حقیقی حکام اقوام متحدہ کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ افغان عوام کی حمایت میں کھڑے رہنے یا اپنے اصولوں پر قائم رہنے کے درمیان ایک چونکا دینے والا انتخاب کرنے پر مجبور ہوجائے۔

اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ یہ بڑھتی ہوئی پابندیاں سنہ 1996 اور سنہ 2001 کے درمیان افغانستان پر طالبان کے پہلے قبضے کی یاد دلا رہی ہیں جب اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ طالبان انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسلسل مرتکب ہورہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغان عوام کے لیے اس بحران کے کسی بھی منفی نتائج کی ذمہ داری ڈی فیکٹو حکام پر ہوگی۔‘

’اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی‘

اقوام متحدہ ملک میں تقریباً 400 افغان خواتین کو ملازمت فراہم کی ہے اور اپریل میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار رمیز الکباروف نے بیان دیا تھا کہ خواتین کو ملازمت پر نہ جانے کا حکم دینے سے عالمی ادارے کے چارٹر کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

رمیز کا کہنا تھا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی اقوام متحدہ کو ہدایات نہیں دے سکتی ہے کہ کس کو ملازمت دی جائے لہٰذا ’اب ہم کوئی رعایت نہیں کریں گے۔‘

پابندی کے اعلان کے بعد سے اقوام متحدہ نے اپنے تمام افغان مرد و خواتین عملے سے کہا ہے کہ وہ تاحکم ثانی دفاتر میں رپورٹ نہ کریں۔

مذکورہ پابندی نے بین الاقوامی غم و غصے کو جنم دیا اور طالبان حکام کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی جانب سے اب تک اقوام متحدہ کے ملازمین پر لگائی جانے والی پابندی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کی مجموعی 3  ہزار 900 کی نفری میں تقریباً 3   ہزار 300 افغان شامل ہیں۔

امدادی اداروں کے مطابق بہت سی این جی اوز نے دسمبر میں خواتین عملے پر پابندی کے اعلان کے بعد احتجاجاً ملک میں تمام کارروائیاں معطل کر دی تھیں جس سے افغانستان کے شہریوں کے مصائب میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ان میں سے نصف کو پہلے ہی بھوک کا سامنا ہے۔

کئی دنوں کی بحث کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو اس حکمنامے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا، حالاں کہ اقوام متحدہ کو بھی عمومی استثنیٰ حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ یہ پابندی ایک ایسے وقت میں اقوام متحدہ کی جانب سے چندہ جمع کرنے کی کوششوں کو بھی متاثر کرے گی جب افغانستان دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے دسمبر 2021 اور جنوری 2023 کے درمیان ایک ارب 80 کروڑ ڈالر افغانستان بھیجے جس سے ملک کے 3 کروڑ 80 لاکھ شہریوں کے لیے ایک امدادی لائف لائن حاصل ہوئی اور ملکی معیشت کو سہارا ملا۔

سنہ 2021 سے افغان خواتین پر عائد دیگر پابندیوں میں نوعمر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روکنا اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے باہر کرنا بھی شامل ہے۔

خواتین کو یونیورسٹیوں میں جانے پر بھی پابندی عائد ہے اور انہیں پارکوں اور جمز وغیرہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp