وہ صحافت کے راستے سیاست تک پہنچا، اس کی صحافت ہو یا سیاست، دونوں ایک مقصد کے تابع تھیں۔ ایک ایسا مقصد جس کے لیے اگر خون بھی ہو جائے تو اسے پرواہ نہ ہوتی، خون خواہ اصول کا ہوتا خواہ انسان کا۔ یہ ذکر ہے بالا صاحب ٹھاکرے کا جسے دنیا اس کے مختصر نام یعنی بال ٹھاکرے سے جانتی ہے۔
بال ٹھاکرے کا فن ان کے مو قلم میں تھا یعنی وہ مصور تھے پھر کارٹون بنانے لگے۔ کارٹون بھی ایسا جس کی دھوم بمبئی سے نکلی اور دور دور تک پہنچی۔ ایک زمانہ تھا، ’آساہی شمبون‘، جس کا شمار صرف ٹوکیو نہیں دنیا بھر کے کثیرالاشاعت اخبارات میں بھی نمایاں تھا، ان کے کارٹون کے بغیر شائع نہ ہوتا تھا۔ بس، یہی کوئی زمانہ ہو گا یعنی 60 کی دہائی کے اواخر کاکہ ان کے اندر کا مراٹھی جاگ اٹھا پھر وہ ان کے فن میں جگہ پاگیا۔
اپنے وطن اور ہم وطنوں سے تعلق خاطر میں کچھ عیب نہیں لیکن بالا صاحب ٹھاکرے کی محبت جس انتہا کو پہنچی، اس نے خود وطن پرستی کے بارے میں کئی سوال اٹھا دیے۔ یہ سوالات کیا تھے، ان کی وضاحت بالا صاحب کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست دیکھ کر ہو جاتی ہے جیسے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو سمجھنا۔ ان کی پسند کا دائرہ صرف گوڈسے پر تمام نہیں ہو جاتا، جرمنی کا خون آشام ہٹلر بھی ان کی پسندیدہ ترین شخصیت تھا جس کا اظہار وہ کھلے بندوں کیا کرتے اور ذرا نہ شرماتے۔ اپنے عروج تک پہنچتے پہنچتے وہ خود بھی ہٹلر کی راہ پر چلے اور ڈنکے کی چوٹ چلے، کیسے؟ یہ سوال ذرا تفصیل طلب ہے۔
’باپ پر پوت پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘۔ یہ ضرب المثل بہت حد تک بال ٹھاکرے پر صادق آتی ہے۔ ان کے والد کیشوّ سیتا رام ٹھاکرے (Keshav Sitaram Thackeray) ایک صاحب قلم سیاسی کارکن اور سماجی مصلح تھے۔ ان کا تعلق اگرچہ ایک قدامت پسند برہمن خاندان سے تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ذات پات کے نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اپنے والد کی طرح بال ٹھاکرے میں بھی کچھ ایسی خوبیاں ہی تھیں لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ، باپ نے قلم اٹھایا تو تحریر وجود میں آئی، بال ٹھاکرے کا قلم برش بن گیا۔ اپنے مزاج میں وہ مصور تھے لیکن پیشے کی ضرورت نے انہیں کارٹونسٹ بنا دیا۔ باپ نے دیکھا کہ سماجی ناہمواری اور مذہبی شدت پسندی نے معاشرے کو دکھوں سے بھر دیا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھا کر انہوں نے عزت کمائی۔ بیٹے نے دیکھا کہ ان کے مہاراشٹر میں باہر سے لوگ چلے آتے ہیں اور ڈھیروں ڈھیر کماتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مقامی لوگوں کے ساتھ زیادتی تھی لہٰذا انھوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کا فن یعنی کارٹون اور پیشہ یعنی صحافت اسی کام کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئے۔
بمبئی جیسے بڑے شہروں میں خلق خدا ہجوم کرتی ہی ہے کیوں کہ اس طرح کے شہر بندرگاہوں کی وجہ سے پھلتے پھولتے ہیں اور عظیم کاروباری مراکز بن جاتے ہیں۔ بمبئی کا تجربہ بھی یہی تھا۔ پڑھے لکھے لوگ اور ہنر مند دور دور سے خاص طور پر قریبی ریاستوں کرناٹک (براہ کرم کرناٹکا، اور مہاراشٹرا نہ کہا جائے۔ اردو میں ان ناموں کے آخر میں الف استعمال نہیں ہو تا) اور گجرات سے آتے اور اپنے علم اور محنت کی بدولت سکھی رہتے یعنی اچھا معاوضہ بھی پاتے اور سماجی مرتبہ بھی حاصل کرتے۔ ایسی صورت حال سماج میں مقابلے کی صحت مند فضا پیدا کرکے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھول دیتی ہے لیکن بعض قدامت پرست معاشروں میں اس سے مختلف بھی ہو جاتا ہے یعنی مقامی لوگ اپنے اندر باہر سے آنے والوں جیسی صلاحیت اور محنت کے ذریعے مقام پیدا کرنے کے بجائے ضد کی نفسیاتی کیفیت میں چلے جاتے ہیں اور باہر سے آنے والوں کے راستے بند کرنے اور ان کے روزگار کے لیے مسائل پیدا کر دیتے ہیں، بمبئی میں بھی یہی کچھ ہوا۔
بال ٹھاکرے نے اس سلسلے میں بمبئی کے مقامی لوگوں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا تو کیا اس کے پس پشت ان کا اپنا تجربہ بھی تھا؟ اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ بطور کارٹونسٹ انہوں نے اخبار کی ملازمت اس لیے چھوڑی تھی کہ انتظامیہ کے ساتھ معاوضے پر جھگڑا ہوگیا تھا یعنی تنخواہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھی۔ خیر، انہوں نے روزگار اور معاوضوں کے بارے میں اپنے کارٹونوں کے ذریعے آواز اٹھائی تو وہ مرکز نگاہ بن گئے، لوگ اپنے مسائل ان کے پاس لے کر آنے لگے۔ لوگ ان کے پاس آتے تو وہ بساط بھر ان کی مدد بھی کیا کرتے لیکن بمبئی جیسے پرہجوم شہر کے لوگوں کے مسائل ایک آدمی کیسے حل کرسکتا ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اس طرح کچھ نہیں ہوسکتا، بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے کوئی بڑا انتظام بھی ہونا چاہیے، ان کی یہی سوچ شیوسینا کے قیام کا باعث بنی۔
لوگ اپنے کام کے لیے تو آپ کا دروازے کھٹکھٹا سکتے ہیں لیکن جب آپ ان انفرادی کوششوں کو اجتماعی جہدوجہد میں بدلنا چاہیں تو بہت کم ساتھ چلتے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 19 جون 1966 کو بال ٹھاکرے بمبئی کے شیوا جی پارک میں ایک ناریل پھوڑ کر ان مقاصد کے لیے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھنے پہنچے تو اس وقت ان کے ساتھ صرف 18 افراد تھے۔ کام بھی تمہارا اور محنت بھی تمہارے لیے لیکن تم ہی میرے ساتھ نہیں ہو۔ شیوا جی پارک میں اس روز کچھ اسی قسم کی صورت حال تھی۔ اس طرح کے حالات میں لوگ حوصلہ ہار کر گھر جا بیٹھتے ہیں لیکن بال ٹھاکرے پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور انہوں نے ان ہی 18 لوگوں کے ساتھ اپنا کام شروع کردیا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ معمولی اعصاب کے آدمی نہیں تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اپنے کام کے لیے تو لوگ آپ کے دروازے پر آسکتے ہیں لیکن اگر آپ یہی کام بڑے پیمانے پر کرنا چاہیں تو بہت تھوڑے لوگ آپ کی پکار پر توجہ دیں گے۔ اس صورت حال کو اگر حوصلہ شکنی سمجھا جائے تو یہ صرف غیروں کی طرف سے نہیں تھی، خود ان کے والد کو بھی اس سے اختلاف تھا۔ وہ اگرچہ مذہبی آدمی تھے لیکن کسی سیاسی گروہ کا نام شیوسینا یعنی مراٹھا کے ایک قدیم راجا یعنی شیوا جی کی فوج رکھنا قطعی مناسب نہیں تھا لیکن والد کی ناپسندیدگی بھی ان کا راستہ نہیں روک سکی۔
شیو سینا نے اپنے قیام کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی انتخابی میدان میں قدم رکھ دیا اور بلدیاتی سطح پر اسے چھوٹی چھوٹی کامیابی بھی ملنے لگی لیکن مہاراشٹر کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت اختیار کرنے اور صوبائی حکومت بنانے کا مرحلہ آنے میں بہت دیر لگی یعنی 1990 تک اس جماعت کی جدوجہد کا سفر جاری رہا لیکن اس کے بانی کا اس تمام عرصے میں حوصلہ پست نہیں ہوا۔
بال ٹھاکرے کو مسلمانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کے دشمن تھے لیکن انہیں سمجھنے کے لیے اس دشمنی کی بنیاد کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ اول و آخر ہندو قوم پرست تھے۔ ان کی نگاہ میں ہندومت کے سوا کچھ اور درست نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں اور ہندوؤں سے کہا کرتے تھے کہ تمہیں صرف اپنے ہندو ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ وہ بھارت کی ریاستی پالیسی ہی کے مخالف تھے یعنی وہ اس تصور پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ ملک کے اتحاد کے سیکولرازم ضروری ہے۔
بال ٹھاکرے اور ان کی شیوسینا کی سرگرمیوں کا دائرہ ابتدا میں مقامی تھا۔ یہ گروہ چوںکہ مہاراشٹر میں غیر مقامی لوگوں کو پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے شروع میں اس نے غیر مقامی لوگوں پر حملے کیے اور ان کے کاروبار تباہ کیے۔ ابتدائی زمانے میں مہاراشٹر میں مدراسی ریسٹوران ان کا کا نشانہ بنے۔ شیو سینا کے مسلح افراد مدراسی ہوٹلوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کردیتے۔ صرف مالکان کو ہی نہیں، گاہکوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ اس کا مقصد غیر مقامی آبادی کو صوبے سے بھگانا تھا۔ بعد میں اس جماعت کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ بڑے پیمانے پر احتجاج اور فسادات کا حصہ بننے لگی۔
شیو سینا کے قیام کے تھوڑے عرصے کے بعد یعنی 1969 میں کرناٹک اور مہاراشٹر کے درمیان سرحدی تنازع پیدا ہوا۔ شیو سینا اس تنازعے میں کود گئی اور ایک سیاسی مسئلے کو پرتشدد فسادات میں بدل دیا۔ یہ فسادات اتنے شدید تھے کہ بمبئی سمیت پوری ریاست مہاراشٹر میں معاملات زندگی معطل ہوکر رہ گئے۔
اپنے قیام کے زمانے سے ہی اس گروہ نے غیر مراٹھی اور غیر ہندو طبقات کو نشانہ بنایا جیسے عبادت گاہوں پر حملے کرنا اور دوسرے عقائد رکھنے والے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ان کا نشانہ بنے۔ بدھ مت کے مندروں پر حملے ایک زمانے میں بہت عام ہو چکے تھے لیکن 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے واقعے کے بعد اس گروہ نے طویل عرصے تک فتنہ و فساد برپا کیے رکھا۔ غیر جانبدار بین الاقوامی صحافتی اداروں کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ افراد جان سے گئے۔
ان فسادات اور انسانی جانوں کے بے دردی سے ضیاع کے ضمن میں بال ٹھاکرے کا مؤقف بڑا دلچسپ اور توجہ طلب ہے۔ وہ ان پرتشدد فسادات کے ذاتی طور پر ذمے دار تھے۔ اس حیثیت میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمے داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ اس طرح کے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ سیاست دان یہ ذمے داری قبول نہیں کرتے لیکن بال ٹھاکرے نے عام سیاست دانوں کی طرح کبھی یہ نہیں کہاکہ وہ اس خون ریزی کے ذمے دار نہیں ہیں۔ ان کے خلاف ایسے سنگین واقعات پر مقدمات بھی بنے لیکن واضح ثبوتوں کے باوجود انہیں کبھی سزا نہ ہوسکی۔ سب سے بڑا مقدمہ تو بابری مسجد والے فسادات میں ایک ہزار افراد کے قتل کا تھا۔ یہ مقدمہ چلا تو متعلقہ عدالت نے دائرہ اختیار کا مسئلہ اٹھا کر مقدمہ خارج کردیا۔ بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ ہو یا اسی طرح مسلمانوں کے قتل عام جیسے واقعات، ایسے مقدمات کا انجام عام طور پر یہی ہوتا ہے۔ ذمے دار صاف بچ نکلتے ہیں۔ اسی قسم کے واقعات ہوتے ہیں جو بھارت کے نظام انصاف اور سیکیولرازم کی اصل حقیقت بے نقاب کرتے ہیں۔
بال ٹھاکرے نے جمہوریت اور جمہوری اصولوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے شیو سینا میں کبھی انتخاب کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس تنظیم کے قیام کے بعد اپنی موت تک وہ اس جماعت کی قیادت کرتے رہے۔ وہ اس جہان سے کوچ کرگئے تو ان کا بیٹا اودے ٹھاکرے اس کا سربراہ بن گیا۔ شیو سینا مہاراشٹر جیسے بڑے صوبے کی حکمران ہے جہاں لوگ خوشی سے اسے ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی حکمراں جماعت پر ایک خاندان قابض ہے۔
بال ٹھاکرے اگر چہ قلم کے آدمی تھے لیکن ان کی تقریر بڑی دلچسپ ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی طویل سیاسی زندگی اور کامیابی کا ایک راز ان کی تقریریں بھی تھیں۔ وہ اپنی تقریروں میں مخالفین پر آوازیں کستے اور انہیں بدترین خطابات سے نوازتے۔ مسلمانوں کو وہ سبز سانپ کا نام دیا کرتے۔ وہ اپنے ایک سیاسی مخالف کو گورے گاؤں کی بھینس، ایک اور مخالف کو باسی نان خطائی اور ایک خاتون سیاسی مخالف کو طوائف کے نام سے یاد کیا کرتے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی خواتین خاص طور پر ان کا نشانہ بنتیں۔ وہ کہا کرتے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ماہ واری بند ہو جانے کے باوجود وہ اتنی سرگرم کیسے رہتی ہیں۔ انہوں نے سیاست میں تشدد اور سیاسی گفتگو میں بد زبانی کو فروغ دیا۔ ایسے لوگوں کی مقبولیت دیرپا نہیں ہوتی لیکن 1966 سے اپنی موت یعنی 17 نومبر 2012 تک مسلسل یہی سب کچھ کرنے والا اس دنیا سے رخصت ہوا تو پورا بمبئی سوگ میں تھا۔