میانمار فوج کا عام شہریوں پر فضائی حملے کا اعتراف، 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ

بدھ 12 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میانمار کی فوج نے وسطی ساگانگ کے علاقے میں ایک کمیونٹی ہال پر فضائی حملہ کرنے کا اعتراف کیا ہے جس میں بچوں اور خواتین سمیت کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم غیر تصدیق شدہ اعدادوشمار کے لحاظ سے ہلاکتیں 100 سے بھی زیادہ ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق فوج کے ایک ترجمان زو من تون نے منگل کو رات گئے چھاپے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے پا زی گی گاؤں میں ان کی حکمرانی کے مخالف مبینہ ملیشیا گروپ کے دفتر کی افتتاحی تقریب پر حملہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں سے کچھ فوجی بغاوت کے مخالف جنگجو تھے لیکن ’کچھ سویلین افراد بھی ہو سکتے ہیں‘۔

اس نے کچھ ہلاکتوں کے لیے ملیشیا کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جنہیں پیپلز ڈیفنس فورسز کہا جاتا ہے۔

عینی شاہدین نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملہ منگل کی صبح سویرے ہوا۔ لڑاکا طیاروں نے کمیونٹی ہال پر بم گرائے اور کچھ ہی دیر بعد ہیلی کاپٹر گن شپ سے جائے وقوعہ پر زندہ بچ جانے والوں پر فائرنگ کرتے ہوئے امدادی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی گئی۔

علاقے کے سابق قانون ساز یو نی زن لاٹ نے میڈیا کو بتایا کہ ’بچوں سمیت بہت سے لوگ مارے گئے اور ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

حملے کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والے پا زی گی کے ایک رہائشی کو آنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ زمین پر پھیلی لاشوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موٹر سائیکلیں جل رہی تھیں، عمارت بھی بمباری سے مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی اور لوگ روتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے تھے۔

کو آنگ نے بتایا کہ اس نے اس حملے میں اپنے رشتہ داروں کو کھو دیا ہے اور اسے اس وقت ایک کنکریٹ پل کے نیچے چھپنا پڑا جب ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر آسمان پر نمودار ہوئے اور زمین پر موجود لوگوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔

کچھ میڈیا رپورٹس میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی گئی ہے اور اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو پھر یہ فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے ذریعے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے یہ ملک میں سب سے مہلک حملہ ہوگا۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے منگل کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو جوابدہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے زخمیوں کو فوری طبی علاج اور امداد تک رسائی کی اجازت دینے کی بھی اپیل کی ہے۔

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر ترک نے کہا ہے کہ فوج اور اس سے منسلک ملیشیا یکم فروری 2021 سے انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیوں میں ملوث ہے جنہیں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

میانمار کا سابقہ نام برما ہے جو فوج کے اقتدار پر قبضے اور اس کی حکمرانی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد سے افراتفری کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار میں فوجی حکومت پر ہزاروں کی تعداد میں اندھا دھند قتل، من مانی گرفتاریوں اور تشدد میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔  ان کے مطابق جن دیہاتوں میں فوج کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں ہزاروں گھر بھی جلائے گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp