اسموگ، جو دھواں (Smoke) اور دھند (Fog) کے امتزاج سے بنتا ہے، ماحولیاتی آلودگی کی ایک خطرناک شکل ہے جو انسانی صحت، معیشت اور قدرتی ماحول پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر فضا میں موجود زہریلی گیسوں، جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈز، اور کاربن مونو آکسائیڈ، کے دھوئیں اور نمی کے ساتھ کیمیائی تعامل کے نتیجے میں بنتی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد اسموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا، جب کوئلے اور دیگر فوسل فیولز کے وسیع پیمانے پر استعمال نے فضائی آلودگی کو بے قابو کر دیا۔
تاریخی طور پر، اسموگ کا ذکر 19ویں صدی کے لندن میں ملتا ہے، جو اپنے (پی سوپ) دھند کے لیے بدنام تھا۔ 1873 کی ایک شدید دھند کے دوران قریباً 700 افراد کی موت ہوئی۔ 1930 میں بیلجیم کے میوز ویلی اور 1948 میں امریکا کے ڈونورا، پنسلوانیا میں بھی مہلک اسموگ کے واقعات پیش آئے، جنہوں نے درجنوں جانیں لیں۔ 1952 کا (گریٹ اسموگ آف لندن) سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوا، جس نے صرف 5 دن میں 12 ہزار سے زائد افراد کی جان لی۔ ان واقعات کے بعد دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے قوانین بنائے گئے۔
مزید پڑھیں:پنجاب: اسموگ کی شدت میں کمی، لاہور کا آلودہ ترین شہروں میں دوسرا نمبر
اسموگ کی 2 اہم اقسام ہیں
کلاسیکی اسموگ، جو سردیوں میں کوئلے کے دھوئیں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے نتیجے میں بنتی ہے، اور فوٹو کیمیکل اسموگ، جو گرم اور دھوپ والے موسم میں گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والی نائٹروجن آکسائیڈز اور دیگر کیمیکل گیسوں کے تعامل سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اقسام نہ صرف سانس کی بیماریوں بلکہ دل کی بیماریوں، جلدی مسائل اور آنکھوں کی جلن کا سبب بھی بنتی ہیں۔
پاکستان میں اسموگ کا مسئلہ خاص طور پر پنجاب کے میدانی علاقوں میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ 2016 میں لاہور میں پہلی بار اسموگ کے خطرناک اثرات قومی سطح پر نمایاں ہوئے، جب فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حدوں کو چھونے لگی۔ اسموگ کی بنیادی وجوہات میں فصلوں کی باقیات کو جلانا، گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں، اور سردیوں میں درجہ حرارت کی الٹ پھیر شامل ہیں، جو آلودگی کو زمین کے قریب پھنساتی ہے اور فضا کو شدید متاثر کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب: اسموگ کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش میں 24 نومبر تک توسیع، تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی بھی برقرار
حکومت پاکستان نے 2017 میں (اینٹی اسموگ پالیسی) متعارف کروائی، جس کے تحت فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی گئی، صنعتی اخراج کے معیارات سخت کیے گئے، اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی گئیں۔ اس پالیسی کے تحت صنعتی یونٹس میں جدید اسکربرز اور گاڑیوں میں کیٹالیٹک کنورٹرز کے استعمال کو فروغ دیا گیا۔ 2024 میں حکومت پنجاب نے ایک جامع 10 سالہ منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد صاف توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا اور ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
مغربی ممالک نے اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ امریکا نے 1970 میں (کلین ایئر ایکٹ) نافذ کیا، جس نے صنعتی اور گاڑیوں کے اخراج کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا۔ برطانیہ نے 1956 میں (کلین ایئر ایکٹ) متعارف کرایا، جس سے کوئلے کے استعمال میں نمایاں کمی آئی اور شہری علاقوں میں فضائی معیار بہتر ہوا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ان ممالک میں اسموگ کی شدت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
مزید پڑھیں: اسموگ: ایک اور المیہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ کا فوری حل عوامی آگاہی، قوانین کے سخت نفاذ، اور فصلوں کی باقیات کو جلانے پر قابو پانے میں مضمر ہے۔ طویل مدتی حل میں صاف توانائی کا فروغ، ماحولیاتی تحفظ کو شہری منصوبہ بندی میں ترجیح دینا، اور بین الاقوامی سطح پر تعاون شامل ہیں۔ ایک کم معروف حقیقت یہ ہے کہ اسموگ ذہنی صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے، جس سے ڈپریشن اور اضطراب جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، اسموگ زرعی پیداوار کو بھی متاثر کرتی ہے، جس سے غذائی قلت اور معیشت پر بوجھ بڑھتا ہے۔
اسموگ ایک سرحد پار مسئلہ بھی ہے، جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں دیکھا گیا ہے، جہاں گاڑیوں اور فصلوں کی باقیات جلانے سے دونوں ممالک کے شہری متاثر ہوتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون اور مربوط حکمت عملی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: بلاول بھٹو کا اسموگ بحران کے دوران کراچی منتقل ہونے کا مشورہ، اہل کراچی کیا کہتے ہیں؟
اگر حکومتیں، تنظیمیں اور عام شہری مل کر کام کریں تو اسموگ سمیت دیگر ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی، جیسے کہ کارپولنگ، صاف توانائی کے ذرائع کا استعمال، اور غیر ضروری گاڑیوں کے استعمال سے گریز۔ عالمی تعاون اور عوامی شعور کے ذریعے، ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف، صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔