چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ آج کمیٹی کا تیسرا اجلاس ہے، وزیر مملکت آئی ٹی شزا فاطمہ نہیں آئیں، ملک بھر میں انٹرنیٹ کی خلل سے لوگ مسائل کا شکار ہیں، انٹرنیٹ سے نوجوان نسل کا روزگار جڑا ہے۔ جس دن ہم وزارت سے جواب مانگتے ہیں، آگے سے جواب ملتا ہے کہ وزیر صاحبہ مصروف ہیں۔ہم اب یہ ساری صورتحال وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے۔
پلوشہ خان کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس ہوا، وزیر مملکت برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام شزا فاطمہ اور وفاقی سیکرٹری آئی ٹی کی کمیٹی میں عدم حاضری پر چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ فراہم کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے غیر قانونی وی پی این کی بندش کے لیے پی ٹی اے کو خط لکھا، یہ مینڈیٹ تو وزارت آئی ٹی کا ہے۔ وی پی این والے معاملے پر چیئرمین پی ٹی اے روشنی ڈالیں، اس سے لوگوں کا کاروبار جڑا ہے۔
مزید پڑھیں: وی پی این کے استعمال پر پابندی: سینیٹ کمیٹی کا اجلاس طلب، وزارت آئی ٹی کی شرکت سے معذرت
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے وی پی این کو غیر شرعی قرار دینے پر کمیٹی ارکان نے تحفظ کا اظہار کیا، چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ یہ مذہب کا تماشا بنایا جارہا ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ پیکا کا قانون سوشل میڈیا پر پابندی لگا سکتا ہے ، کیا وی پی این سوشل میڈیا میں آتا ہے؟
چیئرمین پی ٹی اے بولے کہ غیر قانونی مواد کی بنا پر بلاک کیا جا سکتا ہے، ہم نے پورنوگرافی کی ویب سائٹس بلاک کیں۔ چیئرپرسن کمیٹی نے ممبر لیگل سے سوال کیا کہ وی پی این سوشل میڈیا کے زمرے میں نہیں آتا، کیا آپ نے کوئی رائے بتائی ہے اس پر؟ ممبر لیگل وزارت آئی ٹی بولے کہ ہم نے کوئی رائے نہیں دی۔
ممبر کمیٹی بولے کہ اتنا بڑا مسئلہ ہے ملک میں وزیر آئی ٹی کہاں ہیں، چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان بولیں کہ اگر آپ نے وی پی این کو بند کرنا ہے، تو بے شک آکر ان کیمرہ بریفنگ دیں۔
چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو وی پی این پر بریفنگ دی اور کہا کہ وی پی این کے استعمال کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، فری لانسرز کو وی پی این کی ضرورت ہوتی ہے، وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل 2016 سے شروع ہوا تھا، اگر کوئی وی پی این رجسٹرڈ کرائے، تو انٹرنیٹ بند ہونے سے اس کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا۔
’وی پی این ہر فری لانسر کو بھی ضرورت نہیں، سیکریٹ کام کرنے والے اسے استعمال کرتے ہیں، اب تک پی ٹی اے نے ہزاروں وی پی اینز کی رجسٹریشن کر لی ہے، ایکس فروری 2024 سے پاکستان میں بلاک ہے‘۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ حکومت وی پی این بلاک، ایکس کو بند کرنے کے لیے کررہی ہے۔ ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے کہا کہ وی پی این کے ذریعے غیر قانونی مواد کا استعمال، اور سیکیورٹی رسک ہے تو یہ ہی طریقہ تھا کہ وی پی این رجسٹر کرائیں،
کامران مترضیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں میں جو انٹرنیٹ بند ہے وہ کس وجہ سے ہے؟ کیا یہ بھی توہین مذہب اور غیر قانونی مواد میں آتا ہے؟
سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ میں اگر غلط کام کرنا چاہتی ہوں کیا پھر میں بھی وی پی این رجسٹر کرا لوں؟ کسی کو کیا کیا پتا میں وی پی این کے ذریعے کیا دیکھنا چاہتی ہوں۔ چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ وی پی این انسٹال کر کے آپ کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
’ہمارے ملک میں اپنا کوئی وی پی این نہیں ہے، جیسے چائنہ کے پاس ہے، ہم آئ پی ایڈریس کو رجسٹر کر لیتے ہیں‘۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ آپ وی پی این بند کریں گے تو لوگ کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیں گے، وی پی این بند کرنے سے آپ لوگوں کے ذریعہ معاش کو بند کر رہے ہیں۔ ایکس کو بند کر دیا گیا ، فیس بُک اور انسٹاگرام کو کیوں بند نہیں کر رہے؟
یہ بھی پڑھیں:فری لانسرز کے لیے خوشخبری: پی ٹی اے کی جانب سے نئی وی پی این رجسٹریشن پالیسی کا اعلان
سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں نے نکال لیا ہے اس میں لکھا ہے کہ آپ مواد بلاک کر سکتے ہیں ایپلیکیشن نہیں، فری لانسرز متاثر ہوں گے 30 نومبر کی ڈیڈ لائن کے بعد طوفان آئے گا۔ حکام وزارت آئی ٹی نے جواب دیا کہ ایران، چائنہ اور ترکی میں صرف رجسٹرڈ وی پی این ہیں۔
ممبر آئی ٹی نے کہا کہ وزارت داخلہ نے اسٹیک ہولڈر کے ساتھ میٹنگ کی تھی، ہم نے کہا تھا اگر وی پی این فوراً بند کریں گے تو مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا، فری لانسرز 400 ملین کا زرمبادلہ کما کردے رہے ہیں۔ 2 سے ڈھائی ملین لوگ پاکستان میں فری لانسنگ کررہے ہی اور تقریباً 400 ڈالر سالانہ ایک فری لانسر کمارہا ہے اس کی مختلف کیٹیگریز ہیں۔
واضح رہے وی پی این کی بندش سے متعلق خط کے معاملے پر آئندہ اجلاس میں وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیا گیا۔چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ 30 نومبر سے پہلے دوبارہ کمیٹی کا اجلاس رکھیں گے، اور وی پی این کی بندش کا معاملہ اگلے اجلاس میں ڈسکس کیا جائے گا۔