ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین جنگ فوری بند کرا سکتا ہے۔ ایسا وہ مذاکرات کے ذریعے کرائے گا۔ یوکرین کو رعایتیں دینی پڑیں گی۔ ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پوتین کے 2 مطالبات کا حامی ہے۔ پوتین کا پبلک اور پرائیویٹ موقف یہ ہے کہ یوکرین امن کے بدلے زمین دے، ناٹو کی ممبر شپ نہ لینے کا سرکاری طور پر اعلان کرے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی اس بار احتجاج کی بجائے قوالی کرا لے
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ جنگ شروع ہی اس لیے ہوئی کہ بائیڈن نے یوکرین کی ناٹو میں شمولیت کی حمایت کی۔ ٹرمپ یوکرین کو امریکی مدد فراہم کرنے کا بھی مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب امریکا یوکرین کی مالی اور فوجی مدد نہیں کرے گا تو یوکرین کی لڑنے کی صلاحیت کم ہو گی وہ صلح کی طرف آئے گا۔
یوکرین نے روس کے خلاف امریکی اٹیکمز اور یورپی اسٹارپ شیڈو میزائل استعمال کیے ہیں۔ یوکرین کا امریکا اور یورپ سے مسلسل مطالبہ تھا کہ اسے روس کے اندر حملوں کی اجازت دی جائے۔ اب امریکی صدر جو بائیڈن نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو صدر کا حلف اٹھانا ہے۔ اپنی مدت صدارت کے بالکل آخری ہفتوں میں بائیڈن نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔
اٹیکمز یعنی آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم زمین سے زمین تک مار کرنے والا نظام ہے۔ اس میزائل سسٹم کی رینج 300 کلومیٹر یا 190 میل تک ہے۔ اسٹارم شیڈو برطانیہ اور فرانس کا تیار کردہ فضا سے زمین تک مار کرنے والا میزائل ہے۔ اس کی رینج 250 کلومیٹر ہے۔ یہ گولہ بارود کے گوداموں اور فوجی بنکر کے خلاف مؤثر ہتھیار مانا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ، کشنر، کپتان، زلفی اور زلمے
یوکرین نے روس کے اندر کرسک ریجن میں کافی علاقہ قبضہ کیا تھا۔ روس کرسک کے اس علاقے کا آدھا حصہ یوکرین سے واپس چھڑوا چکا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں شمالی کوریا کی 10 ہزار فوج بھی 50 ہزار روسی فوج کے ساتھ تعینات کی جا رہی ہے۔
روس جب زمین کے بدلے امن کی بات کرتا ہے تو اس کو پہلے اپنا علاقہ بھی واپس لینا ہوگا۔ ایسا کرنے میں ناکامی ہوئی تو معاہدہ کرتے ہوئے کرسک کے بدلے یوکرین کا زیر قبضہ علاقہ واپس کرتے ہوئے رعایت بھی دینی پڑے گی۔ روسی کوشش یہ ہے کہ ٹرمپ کی آمد سے پہلے کرسک کو یوکرین کے قبضے سے چھڑا لیا جائے۔ روسی صدر ٹرمپ کی ڈیل میکنگ صلاحیت سے واقف ہیں۔
بظاہر ٹرمپ کا مؤقف روس کی حمایت ہی میں ہے۔ کرسک ریجن کے کچھ علاقے پر یوکرین اگر قبضہ برقرار رکھتا ہے۔ تب پوتین کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ ہی پوتین سے یوکرین کے لیے فیور مانگیں گے۔ اپنا علاقہ چاہیے تو یوکرین کے بھی کچھ علاقے واپس کرو۔ ٹرمپ ایک پریکٹیکل مائنڈ سیٹ والا بزنس مین ہے۔ یوکرین کی پوزیشن اچھی ہوئی تو اس کی بھی سائیڈ لے گا۔ اچھی نہ ہوئی تو روس ہی کی حمایت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کپتان کے لیے کچھ نہیں کرے گا
جرمن چانسلر اولاف شولز نے ولا دیمیر پوتین سے رابطہ کیا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد یہ کسی جی 7 ملک کے سربراہ کا روسی صدر سے پہلا رابطہ ہے۔ رابطہ جرمنی کی طرف سے کیا گیا ہے۔ شولز نے روسی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تمام فوج یوکرین کے علاقے سے نکال لیں۔ روسی صدر کا وہی مستقل مؤقف تھا پرانا والا کہ روس نے یوکرین کے جن علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اس کنٹرول کو تسلیم کیا جائے۔ یوکرین ناٹو کا ممبر نہ بننے کا سرکاری طور پر اعلان کرے۔
پوتین کا کہنا تھا کہ یوکرین کو خود ان 4 علاقوں سے نکل جانا چاہیے جو روس نے اپنے ساتھ شامل کر لیے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جرمن چانسلر پر تنقید کی ہے کہ انہوں نے کیوں روسی صدر سے رابطہ کیا۔ اولاف شولز کے اس رابطے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ جرمنی نے میسج دیا ہے کہ ٹرمپ کی واپسی کے بعد جرمنی اور یورپی یونین یوکرین کی حمایت میں کھڑے رہیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کا مؤقف بھی ٹرمپ سے مختلف رہے گا۔
یوکرین کا دعویٰ تھا کہ اگر اسے امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ روس سے اپنا 20 فیصد علاقہ بھی واپس لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کرسک ریجن پر کنٹرول بھی برقرار رکھ سکتا ہے۔ روس یوکرین دونوں کے پاس وقت کم ہے۔ آنے والے کچھ ہی ہفتوں میں سردی شدت اختیار کر جائے گی۔ پھر دونوں ملکوں کے لیے مزید پیشرفت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ٹرمپ جب حلف اٹھائے گا تو اپنی اپنی پوزیشن سے ہی مذاکرات کرنے ہونگے۔
یہ بھی پڑھیں:آصف زرداری، اور بھی بھاری
روسی صدر کے پاس یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مذاکرات سے نکل جائیں۔ کوئی بھی رعایت دے دیں یا کسی بھی مطالبے سے انکار کر دیں۔ یورپ اور امریکا نے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے میں تاخیر کر دی ہے۔ روس اپنا اکویپمنٹ ان میزائلوں کی رینج سے دور منتقل کر چکا ہے۔ یوکرین اب اپنی موجودہ پوزیشن ہی برقرار رکھ سکتا ہے۔ میزائلوں کے استعمال کی اجازت دے کر ایک طرح سے جو بائیڈن نے یوکرین کو ٹرمپ پروف بنانے کی کوشش کی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔