وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں 24 نومبر کو موبائل سروس اور مختلف شاہراہوں کو کنٹینرز لگا کر بند کرنے کی اصل وجہ بیان کردی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس حوالے سے بتایا کہ 24 نومبر کو بیلاروس کا 65 رکنی وفد پاکستان آرہا ہے جس میں 10 وزرا ہیں، جبکہ 25 نومبر کو بیلاروس کے صدر 3 روزہ دورے پر پاکستان آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے مذاکرات ہورہے ہیں یا نہیں؟ محسن نقوی اور خواجہ آصف کے مؤقف میں تضاد
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کنٹینرز لگانے پڑیں گے اور موبائل فون سروس بھی بند کرنا پڑے گی کیونکہ ریاست کے مہمانوں کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہوگی، اس کے بعد ہمیں اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف خاص دنوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیوں احتجاج کررہی ہے، اب انہوں نے ایسے وقت میں احتجاج کی کال دی ہے جب بیلاروس کے صدر پاکستان آرہے ہیں، پی ٹی آئی کے احتجاج میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی شامل ہوتی ہے، جو ایک سوالیہ نشان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کی دو بار عمران خان اور محسن نقوی سے ملاقاتیں، کیا پی ٹی آئی کال واپس لے رہی ہے؟
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، کیوں کہ دھمکیوں کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی، کسی کو بھی اسلام آباد میں اجازت کے بغیر جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے، چیف جسٹس کا جو بھی آرڈر ہوگا اس پر عملدرآمد کریں گے۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے بات چیت ہی کرنی ہے تو عدالتوں سے کریں جہاں سے انھیں رہائی مل سکتی ہے، احتجاج اپنے اضلاع اور صوبے میں کریں ،کسی کو اسلام آباد پر یلغار کی اجازت نہیں دے سکتے، ہر اہم موقع پر پی ٹی آئی کا احتجاج ہوتا ہے فیصلہ عوام کریں کہ یہ کس ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی دارالحکومت میں کسی احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، چیف سیکریٹری اور آئی جی سے رابطہ رہتا ہے، کیوں کہ وہ صوبے کی ذمہ دار پوزیشنز پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی ہے، اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو بالکل بتائیں، لیکن یہ دھمکیوں سے نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو ڈی چوک میں نہیں آنے دیں گے، اس کے علاوہ جو بھی اسلام آباد میں احتجاج کے لیے نکلے گا گرفتار ہوجائے گا کیونکہ دفعہ 144 نافذ ہے، ہم نے وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔