‘مصنوعی ذہانت سے خوفناک غربت پیدا ہو سکتی ہے’

منگل 26 نومبر 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسٹیفن ہاکنگ، ایلون مسک اور دیگر نمایاں سائنس دانوں نے 2015 میں ایک کھلا خط لکھا جس میں سوسائٹی کو مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے خبردار کیا گیا تھا۔ یہ خط آج بھی اتنا ہی اہم اور متعلق ہے جتنا اس وقت تھا۔ اِس خط میں لکھا تھا کہ ’’ہم ایسی وسیع تحقیق کی تجویز دیتے ہیں جس کی توجہ اِس بات کو یقینی بنانے پر ہو کہ بڑھتی ہوئی مصنوعی ذہانت کی اہلیت کے حامل نظام مضبوط اور مفید ہیں۔ ہمارے مصنوعی ذہانت کے تمام نظاموں کو وہ کرنا چاہیے جو ہم چاہتے ہیں‘‘۔ یہ خط بہت اہم تھا جو مصنوعی ذہانت کے انسانی ذہانت سے آگے نکل جانے کے امکان کے بارے میں بحث کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا تھا۔

اس خط کی بابت ہاکنگ نے ایک انٹرویو کے دوران تفصیل سے گفتگو کی، جس میں انھوں نے مصنوعی ذہانت کے مستقبل اور اس کے اثرات کے بارے میں بہت مفید باتیں کیں۔ ہاکنگ کہتے ہیں مصنوعی ذہانت سے متعلق میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں: ’’شاید کوئی سوچے کہ مخلوق کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنے خالق سے زیادہ ذہین ہو جائے۔ کیا آپ اِس سے متفق ہیں؟ اگر ہاں تو کیا آپ کے خیال میں مصنوعی ذہانت کبھی بھی نسلِ انسانی کے لیے کافی خطرہ پیدا کر سکتی ہے؟ اگر مصنوعی ذہانت کے لیے انسانی ذہانت سے آگے نکل جانا ممکن ہو تو آپ ’کافی‘ کی حد کیسے طے کریں گے؟ دوسرے لفظوں میں انسانیت، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ یہ اِس کی اپنی ذہانت سے آگے نہیں نکلے گی، کتنی بہتر مصنوعی ذہانت تخلیق کر سکتی ہے؟ اس بات کا واضح امکان ہے کہ کوئی چیز اپنے پیش رؤں سے زیادہ بڑی ذہانت حاصل کر لے۔ ہم اپنے بندروں جیسے اجداد سے زیادہ قابل ہیں اور آئن سٹائن اپنے والدین سے زیادہ ذہین تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کہاں مصنوعی ذہانت انسانوں سے بہتر ہو جاتی ہے، یہ انسانی مدد کے بغیر کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتی، اگر ایسا ممکن ہوتا توہم ایک ذہانت کے دھماکے کا سامنا کرتے جس کے حتمی نتائج میں مشینیں ہوتیں جن کی ذہانت ہم سے آگے نکل جاتی۔”

ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ آپ کے اور ایلون مسک کے نظریات کو اکثر میڈیا میں شیطانی ذہانت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آپ اپنے نظریات کو کیسے پیش کریں گے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کا ٹرمینیٹر انداز میں شیطانی ذہانت کو نظر انداز کرنا اس کا بھولپن ہے؟

ہاکنگ کا جواب تھا، ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں، میڈیا اکثر اصل بات کو غلط انداز میں پیش کرتا ہے، مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا خطرہ اس کی مخالفت نہیں مقابلہ ہے۔ ایک مافوق الفطرت مصنوعی ذہانت بہت اچھی ہوگی اگر وہ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ اور اگر اُس کے مقاصد ہم سے مطابقت نہیں رکھتے تو ہم مشکل میں ہیں۔ آپ شاید ایک چونٹیوں سے نفرت کرنے والے شیطان نہیں ہیں کہ جو دشمنی میں چونٹیوں کے اوپر پاؤں رکھتا ہے لیکن اگر آپ ایک ہائیڈرو الیکٹرک سبز توانائی کے منصوبے کے سربراہ ہیں اور وہاں پر ایسا کوئی ٹیلا ہے جسے گرانا مقصود ہے تو یہ چونٹیوں کے لیے بہت بُرا ہو گا۔ مہربانی فرما کر انسانیت کو اِن چونٹیوں کے مقام پر مت رکھیں۔ اپنے طالب علموں کی نہ صرف مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کریں بلکہ یہ کوشش بھی کریں کہ وہ اُسے مفید کیسے بنا سکتے ہیں۔”

جب ہاکنگ اور دیگر سائنس دانوں نے مذکورہ خط لکھا اس وقت مصنوعی ذہانت اس طرح عملی صورت میں عام لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن پھر بھی ان معاشروں میں اس بارے میں کافی تحفظات موجود تھے اور لوگ اس مصنوعی ذہانت کے انسانی ذہانت سے آگے نکلنے کے بارے میں سوالات اٹھارہے تھے۔ ایسے ہی کچھ سوالا ت کے جواب میں ہاکنگ کا کہنا تھا کہ ’’مصنوعی ذہانت کے محققین کے درمیان اس پر کوئی اتفاق نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے انسانی ذہانت سے اور اس سے بھی آگے نکلنے میں کتنا وقت لگے گا، سو مہربانی فرما کر کسی ایسے بندے کی بات پر کان نہ دھریں جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس بارے میں جانتا ہے کہ یہ آپ کی زندگی میں ممکن ہو گا یا نہیں۔ جب یہ رونما ہو گا تو یہ انسانیت کے لیے یا تو بہت برا ہو گا یا بہت اچھا، سو اسے درست رکھنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں مصنوعی ذہانت کے مقصد کا رخ خالص بے سمت مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے سے مفید ذہانت تخلیق کرنے کی طرف موڑنا چاہیے۔ یہ جاننے میں شاید دہائیاں لگ جائیں کہ اسے کیسے کرنا ہے، سو اسے تلاش کرنے کی کوشش ابھی سے شروع کردیں بجائے اس رات کے آنے سے پہلے کہ جب مضبوط مصنوعی ذہانت وجود میں آجائے۔”

وہ اس حوالے سے پرامید بھی تھے۔ ’’جس طرح سٹیو اوموہنڈرو نے زور دیا ہے ایک انتہائی ذہین مصنوعی ذہانت شاید بقا کا محرک تیار کر لے اور اس کا جو بھی مقصد ہو اس کی طرف بڑھنے کے لیے زیادہ وسائل حاصل کر لے، کیونکہ بقا اور زیادہ وسائل کا حامل ہونا دوسرے مقصد کے حصول کے لیے اس کے امکانات کو بڑھا دے گا۔”

مصنوعی ذہانت کے بارے میں جس سب سے بڑے خطرے کی نشاندہی کی جاتی ہے وہ تکنیکی بے روزگاری ہے، یہ سوچا اور پوچھا جارہا ہے کہ جب ہم خود کار کاموں کا نظام وضح کر لیں گے، جو مختلف کاموں کو تیزی سے اور کم قیمت پر سرانجام دے گا توکیا یہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری کو جنم نہیں دے گا؟ کچھ لوگ اس صورت حال کا دستکاروں کی اس صورت حال سے تقابل کرتے ہیں جنہوں نے سو سال قبل ٹیکنالوجی کے باعث پیدا ہونے والی بے روزگاری کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ہاکنگ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ایسی دنیا کی پیش بینی کر سکتے ہیں جہاں لوگ کم کام کرتے ہیں کیونکہ زیادہ تر کام خود بخود ہو رہا ہو؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں لوگ ہمیشہ کام ڈھونڈ رہے ہوں گے یا کچھ کرنے کے لیے نئے کام خود تخلیق کر رہے ہوں گے؟

ہاکنگ کا جواب تھا کہ ’’نتیجے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اشیاء کیسے تقسیم ہوتی ہیں۔ اگر مشین کی پیدا کردہ دولت بانٹ کر استعمال کی جائے تو ہر شخص انتہائی پر تعیش زندگی گزار سکتا ہے۔ اور اگر مشینوں کے مالکان دولت کی تقسیم کے خلاف کامیابی سے مہم چلائیں گے تو خوفناک غربت پیدا ہو گی۔ اب تک رجحان دوسری صورت کی طرف ہی دکھائی دیتا ہے، ٹیکنالوجی روز افزوں عدم مساوات کو بڑھا رہی ہے۔”

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp