دستی گھڑی، جو کبھی ہر ایک کی شان تھی

بدھ 27 نومبر 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‘گھڑی ہاتھ میں پہنو گے تو یہ تاثر اجاگر ہوگا کہ وقت کے پابند ہو، وقت کی قدر کرتے ہو۔’

یہ جملہ والد صاحب نے میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد دستی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ جس کے بعد جوانی اور اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے یہ تاکید کبھی فراموش نہیں کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ گھڑی کے ماڈلز بھی بدلے لیکن کلائی سے گھڑی کا ساتھ نہ چھٹا۔ کئی دوستوں نے اس بات پر ہمیں ہدفِ تنقید بھی بنایا کہ مصنوعی ٹیکنالوجی کے اس دور میں ابھی تک دستی گھڑی سے چمٹے ہوئے ہو۔ لیکن انہیں کیا بتاتے کہ ‘نہیں کوئی بے کارچیز اس جہاں میں’۔ خیر اب تو ننھا منا اسمارٹ سیل فون چھوٹا سا لیپ ٹاپ بن چکا ہے۔ جس میں وقت سے لے کر دنیا جہاں کا سیر و سپاٹا مل جاتا ہے۔ اب ایسے میں بھلا کون دستی گھڑی کی جھنجھٹ پالے۔ بقول شاعر،

آج میری کلائی ایک گھڑی سے بھی محروم ہے
ورنہ میں تو ایک شخص کا وقت خریدتا رہاہوں

خیر ہم تو وقت خریدتے نہیں رہے لیکن بتاتے ضرور رہے ہیں۔ بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا تھا جب سر راہ کوئی روک کر آپ سے وقت دریافت کرتا اور پھر دو قدم آگے بڑھنے کے بعد کوئی اور اسی انتظار میں رہتا۔ لیکن اب تو یہ ’زحمت‘ دینے والا کوئی نہیں رہا۔ سستے سے سستے سیل فون کے اندر کوئی خاص سہولت ہو نہ ہو لیکن وقت وہ بھی ڈیجیٹل انداز میں دکھانے کی پیش کش ہوتی رہتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آپ آس پاس نظریں گھمائیں تو مشکل سے ہی ایسے افراد ملیں گے جو دستی گھڑی کا استعمال کرتے ہوں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو نکاح کے وقت گھڑی بھی تحفتاً ملتی ہے تو بس وہ اُس شاندار ڈبے میں ہی قید رہتی ہے جو اس کا پہلا مسکن ہوتا ہے۔ اپنے والد صاحب کی طرح جب ہم نے بھی اپنے صاحب زادے کو گھڑی پیش کی تو موصوف نے خوشی خوشی پہلے اسے اپنی کلائی کی زینت تو بنایا لیکن پھر یکدم کہا کہ جب سیل فون ہے تو بھلا گھڑی کی کیا ضرورت، رکھ لیں اسے سنبھال کر، کسی تقریب میں پہن لو ں گا۔ بس اس تاریخی جملے کے بعد گھڑی اور ہم انتظار ہی کرتے رہے کہ کب صاحب زادے اپنے قول کو سچ ثابت کریں گے۔

جیسے آج کل سیل فون کے ذریعے کسی بھی فرد کے رتبے اور شان و شوکت کا اندازہ لگایا جاتا ہے، ایک زمانے میں کچھ ایسی ہی چغلی دستی گھڑی کردیا کرتی۔ یاد ہے کہ ایک ایسی بھی گھڑی تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے مختلف اعداد پر ہیرے جڑے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ جیمز بانڈ سیریز میں تو دستی گھڑیوں کے وہ وہ کمال دیکھے کہ حسرت ہی رہی کہ کاش ایسی ہی کوئی گھڑی ہمارے پاس بھی ہوتی۔

ہمارے ایک رشتے دارکو مہنگی گھڑیاں خریدنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ موصوف اس قدر جوشیلے تھے کہ ایک کلائی پر بسا اوقات دو دو گھڑیاں پہنتے اور اپنی امارات کا رعب دوسروں پر خوب ڈالتے۔ ان کی اسی دھاک کا یہ نقصان ہوا کہ مہنگی بیش قیمت گھڑیوں کو راہزنوں نے اُس وقت چھینا جب انہی سے وقت معلوم کررہے تھے۔ خیر یہ دستی گھڑی ہی تھی جس کو دکھا کر محبوب یا محبوبہ ایک دوسرے کو یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ ان میں سے کوئی ایک تاخیر کا شکار ہوا ہے۔

گھڑی کی اہمیت کا سارا غرور ہمارا اس وقت خاک میں مل گیا جب ہمارے عمر رسیدہ پڑوسی لیاقت بھائی پر ہم نے اپنی گھڑیوں کی لا محدود تعداد پر اپنے ہی گن گانے شروع کیے۔ کافی دیر تک وہ توجہ سے سنتے رہے اور پھر محفل سے اٹھتے ہوئے بولے ’میاں گھڑیاں چاہے کتنی بھی رکھ لو۔ بس وقت کی قدر سیکھو لو تو ہاتھ میں گھڑی نہ ہو بھی تو چلتا ہے۔ ‘

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp