اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے صحافی اور اینکرپرسن مطیع اللہ جان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج طاہر جاوید سپرا نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے مطیع اللہ جان کو 30 نومبر کو عدالت میں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
مطیع اللہ جان پر مقدمہ درج، کونسی دفعات لگائی گئیں؟
لاپتا ہونے اور پھر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ظاہر کیے جانے والے معروف صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کیخلاف اسلام آباد میں ایف آئی آر درج کی۔
پولیس نے مطیع اللہ جان کیخلاف چیکنگ پر مامور پولیس پارٹی پر گاڑی چڑھانے، حالت نشہ میں گاڑی ڈرائیو کرنے، گاڑی سے نشہ آور مواد آئس برآمد ہونے اور پولیس اہلکاروں پر بندوق تانے کے الزام میں مختلف دفعات کے تحت دہشتگردی کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

پولیس کی جانب سے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا اور بعد ازاں گرفتاری اور مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیے جانے پر صحافی برادری میں شدید اضطراب پیدا ہوا ہے، اس حوالے سے سینیئر صحافی اعزاز سید نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر مطیع اللہ جان کیخلاف درج ایف آئی آر کا عکس شیئر کرتے ہوئے کیس کو بے بنیاد اور اس مسودہ کو شرمناک قرار دیا ہے۔
.Police has registered terrorism case against @Matiullahjan919 . He is accused of hitting a police picket and putting gun on a police constable – base less and shameful draft of the case pic.twitter.com/FF2TMIyUiY
— Azaz Syed (@AzazSyed) November 28, 2024
میڈیا رپورٹ کے مطابق لاپتا ہونے والے سینیئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کو گرفتار کر کے تھانہ مارگلہ میں منتقل کیا گیا ہے۔
معروف صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ، جن کی گزشتہ شب لاپتا ہونے ہونے کی اطلاع تھی، کی گرفتاری ظاہر کرکے انہیں تھانہ مارگلہ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ مطیع اللّٰہ جان کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مطیع اللّٰہ جان کے خلاف ابھی تک کسی درج مقدمے کی نقل فراہم نہیں کی گئی ہے۔
قبل ازیں معروف صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کو گزشتہ شب پمز اسپتال کی پارکنگ سے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب کہ وہ وہاں ساتھی صحافی کے ہمراہ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
Matiullah Jan has been abducted from the parking of PIMS tonight at around 11 by unmarked abductors in an unmarked vehicle alongside Saqib Bashir (who was let go 5 minutes later). This follows his courageous coverage of the protests in Islamabad. I demand that my father be let go…
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) November 28, 2024
صحافی مطلع اللہ جان کے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ان کے صاحبزادے عبد الرزاق کی جانب سے کی والی ٹوئٹ کے مندرجات کے مطابق مطیع اللہ جان کو ان کے ساتھ صحافی ثاقب بشیر کے ہمراہ شب 11 بجے پمز اسپتال کی پارکنگ سے اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
ٹوئٹ کے مطابق ثاقب بشیر کو 5 منٹ بعد چھوڑ دیا گیا، تاہم مطیع اللہ جان کو ایک اغوا کار ایک بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں اپنے ہمراہ لے گئے۔
ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان کو اسلام آباد میں احتجاج کی جرأت مندانہ کوریج کے بعد اغوا کیا گیا، ٹوئٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف مطیع اللہ جان کے ٹھکانے سے متعلق ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا جائے بلکہ انہیں فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے رات گیارہ بجے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے۔
اُن کے ہمراہ صحافی ثاقب بشیر بھی تھے جن کو بعد ازاں آئی نائن سیکٹر میں اغواکاروں نے چھوڑ دیا۔
ثاقب بشیر کے مطابق دونوں کو منہ پر کپڑا ڈال کے ڈالہ نما گاڑی میں لے جایا گیا…— Bashir Chaudhary (@Bashirchaudhry) November 28, 2024
صحافی مطیع اللہ جان کے یوں لاپتا ہو جانے سے متعلق معروف صحافی بشیر چوہدری نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ سے رات 11 بجے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے۔
بشیر چوہدری کے مطابق اُن کے ہمراہ صحافی ثاقب بشیر بھی تھے جن کو بعد ازاں آئی نائن سیکٹر میں اغواکاروں نے چھوڑ دیا۔
ثاقب بشیر کے مطابق دونوں کو منہ پر کپڑا ڈال کے ڈالہ نما گاڑی میں لے جایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ مطیع اللہ جان جولائی 2020 میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی اغوا ہوئے تھے، تاہم بعد ازاں بحفاظت گھر پہنچ گئے تھے۔
جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی مذمت
علاوہ ازیں کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ہنگامی اجلاس میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان اور سینیئر کورٹ رپورٹر شاکر اعوان کی غیر قانونی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا فوری طور پر گرفتار صحافیوں کو رہا کیا جائے اور اس غیر قانونی اقدام پر چیف جسٹس پاکستان از خود نوٹس لے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔