شام کی لڑائی کے علاقائی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، اقوام متحدہ

اتوار 1 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کے مندوب نے کہا ہے کہ شام میں لڑائی کی شدت کے نتیجے میں حکومت حلب کا کنٹرول کھو چکی ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر چین کا گہری تشویش کا اظہار

 اتوار کو اپنے ایک بیان میں شام کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب گیر پیڈرسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’میں شام اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان فوری اور سنجیدہ سیاسی رابطے کا مطالبہ کرتا ہوں تاکہ خونریزی کو روکا جا سکے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے مطابق سیاسی حل پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔

 ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات سے شہریوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس کے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ روسی فضائی طاقت کی مدد سے شامی فوج نے 2016 میں حلب کے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

 لیکن بدھ کو حزب اختلاف کے مسلح گروہوں کے اتحادی جنگجوؤں نے ایرانی اور روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج کے خلاف شدید حملے کر کے حلب کا کنٹرول سنبھال لیا۔

مزید پڑھیں:فرانس کا عالمی برادری پر مشرق وسطیٰ میں فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ

ادھر برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس وار مانیٹر کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے کہا کہ ’حیات تحریر الشام ‘ اور اتحادی مسلح حزب اختلاف کے دھڑے نے’کرد فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں کو چھوڑ کر حلب شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے‘۔

 اقوام متحدہ کے مندوب گیر پیڈرسن نے بڑے چیلنجز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم شام میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 پر عمل درآمد کے لیے اجتماعی ناکامی کی علامت ہے‘۔

واضح رہے کہ 2015 میں منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد میں شام میں سیاسی تبدیلی کے لیے ایک روڈ میپ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، جس میں ملک گیر جنگ بندی، ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں انتخابات کا انعقاد شامل تھا۔

 اقوام متحدہ کے مندوب نے کہا کہ ’میں نے بار بار شام میں کشیدگی میں اضافے کے خطرات کے بارے میں متنبہ کیا ہے اور اب حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شام کی موجودہ صورت حال کو فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی جارحیت مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ، لبنان کے بعد عراق پر بھی میزائل حملے

ادھر عرب میڈیا کے مطابق شامی فوج ذرائع نے بتایا ہے کہ روسی اور شامی لڑاکا طیاروں نے اتوار کو شمالی شام میں شدید بمباری کے دوسرے دن حزب اختلاف کے زیر قبضہ شہر ادلب کو نشانہ بنایا جس کا مقصد حلب شہر میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنا تھا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک فضائی حملے میں ادلب کے مرکز میں ایک پرہجوم رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا گیا، جو ترکی کی سرحد کے قریب حزب اختلاف کے انکلیو کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں تقریباً 40 لاکھ افراد عارضی خیموں اور رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔

جائے حادثہ پر موجود امدادی کارکنوں کے مطابق کم از کم 4 افراد اس حملے میں مارے گئے ہیں جب کہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

شامی فوج اور اس کے اتحادی روس کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے مسلح دھڑوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور شہریوں پر حملے کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں ۔شامی فوج کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے حملے میں اس کے درجنوں فوجی مارے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی، لبنان کی جغرافیائی سالمیت کا احترام کیا جائے، انتونیو گوتریس

واضح رہے کہ  یہ جنگ، جس میں لاکھوں افراد مارے جا چکے اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، 2011 سے جاری ہے اور اس کا کوئی باضابطہ اختتام نہیں ہوا ہے۔ لیکن زیادہ تر بڑی لڑائی کئی سال پہلے اس وقت رک گئی تھی جب ایران اور روس نے شامی حکومت کو زیادہ تر زمینی اور تمام بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp