میرے نزدیک اسلام آباد سانحہ نے تحریک انصاف کو ایک بڑا دھچکا پہنچایا ہے، یہ کہنا تو خیر غلط اور ناانصافی ہوگی کہ تحریک انصاف ختم ہوگئی یا اب وہ احتجاج کرہی نہیں پائیں گے، بڑی سیاسی جماعتیں یوں آسانی سے کمزور یا ختم نہیں ہوسکتیں۔ ان کی جگہ لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے، اس لیے یہ رشتہ جلد کمزور نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ پارٹی کو پھر سے منظم ہونے اور ڈی چوک والے واقعے کے دھچکے کو برداشت کرنے میں کچھ وقت بھی لگے گا اور انہیں 6 اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد احتجاج:غیر جانبدارانہ تجزیہ کرائیں
تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپنی غلطیاں تسلیم کرتی ہیں اور نہ ہی کسی واقعے کا تجزیہ کرنے کی زحمت کرتی ہیں۔ تحریک انصاف کو البتہ چاہیے کہ وہ اچھی روایت قائم کرے اور اسلام آباد احتجاج کے پورے واقعے کا جائزہ لینے اور اس کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرنے کا اہتمام کرے۔ بے شک وہ اس ساری تفصیل کو عوام کے سامنے نہ لائیں۔ اندرونی طور پرسروے کرائیں اور کارکنوں سے آرا لی جائیں۔
پارٹی کی موجودہ قیادت میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، سلمان اکرم راجہ نمایاں ہیں۔ ان میں سے 2 یا 3 افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو یہ کام کر گزرے۔ اگر ممکن ہو تو سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بھی اپنے پاس بلا کر ان کی آرا لیں۔ خاص کر وہ صحافی، رپورٹر جو اسلام آباد میں ڈی چوک اور اس کے آس پاس رپورٹنگ کرتے رہے اور انہوں نے بہت کچھ دیکھا۔ پارٹی کارکنوں کی حالت زار جن کے سامنے تھی اور کئی پارٹی رہنماؤں کی عدم دلچسپی بھی۔ پارٹی کو یہ شواہد اکٹھے کرنے چاہییں، بے شک اس رپورٹ کو خفیہ رکھا جائے۔
غلطی کہاں ہوئی؟
اہم ترین سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اس مارچ میں غلطی کہاں پر ہوئی؟ اس کا تعین ہونا چاہیے۔
کیا بغیر کسی منصوبہ بندی کے اسلام آباد پر چڑھ دوڑنا غلطی تھی؟ کیا پنجاب میں پارٹی اور کارکنوں کو متحرک کیے بغیرصرف پختونخوا پر انحصار کرنا غلط رہا؟ بشریٰ بی بی کا مارچ کے ساتھ شامل ہونا اور خود لیڈ کرنا شروع کردینا بلنڈر ثابت ہوا؟
کیا بشریٰ بی بی کا دیگر سینیئر رہنماؤں کا مشورہ نظرانداز کرکے ڈی چوک جانے پر اصرار کرنا تباہ کن رہا؟ کیا ڈی چوک جانے کے بجائے حکومت کی جانب سے تجویز کردہ جگہ سنگجانی قبول کرکے وہاں دھرنا شروع کر دینا بہتر حکمت عملی ہوتی؟ کیا حکومتی کریک ڈاؤن شروع ہونے پر بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کا فوری طور پر گاڑی میں بیٹھ کر چلے جانا سب سے نقصان دہ فیکٹر رہا؟
فرض کرلیں بشریٰ بی بی اگر کچھ پیچھے ہٹ کر اسلام آباد کی حدود میں موجود رہتیں، وہ بے شک علی امین گنڈاپور کی گاڑی ہی میں رہتیں، انہیں زبردستی شیشے توڑ کر گرفتار کرنا پڑتا، مگرتب اس سب میں مزاحمت کا عنصر شامل ہوتا اور کارکنوں کا مورال ڈاؤن نہ ہوتا۔ سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کی گاڑی کو شناخت کرلیا گیا اور اسے روکنے کا سوچا گیا، مگر جب اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہیں کہا گیا کہ ہم بشریٰ بی بی کو اس وقت گرفتار کرکے ہیرو نہیں بنانا چاہتے، یہ گرفتاری تو ہم کسی بھی وقت کرسکتے ہیں، اس لیے انہیں جانے دو۔
یہ بات اگر درست ہے تو پھر بشریٰ بی بی کی لیڈرشپ صلاحیتوں پر بہت سے سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اپنی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کا تجزیہ کرے۔
’سولو فلائٹ نہیں اتحاد بنانے کا وقت ہے‘
8 فروری کے الیکشن کے بعد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ تحریک انصاف کو آگے بڑھنے اور احتجاج کرنے کے لیے اب سولو فلائٹ کی نہیں بلکہ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بھی اس اہمیت کو محسوس کیا اور تحفظ آئین کے حوالے سے ایک ڈھیلا ڈھالا سا سیاسی اتحاد بنا دیا گیا، جس میں بلوچستان سے محمود اچکزئی اور اختر مینگل کی جماعتیں شامل تھیں۔ مولانا فضل الرحمان اس اتحاد کا حصہ تو نہیں بنے، مگر وہ کسی حد تک اس کے قریب رہے، جماعت اسلامی نے البتہ شمولیت سے صاف انکار کیا اور کہاکہ جماعت اب آئندہ اتحادی سیاست میں دلچسپی نہیں لیتی، وہ کسی خاص نکتے پر تو سیاسی تعاون کرسکتے ہیں، مگر اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اس اتحاد میں سندھ سے جی ڈی اے کو شامل کرنا چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے فطری اتحادی بنتے ہیں۔ پیر صاحب پگاڑا ویسے بھی فروری کے الیکشن نتائج سے سخت ناخوش اور شاکی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اسد قیصر، عمر ایوب وغیرہ جی ڈی اے سے رابطہ کرکے انہیں بھی شامل کرتے۔ بہرحال یہ ایک مناسب سیاسی اتحاد بن گیا تھا جس میں حکمران اتحاد سے باہر کی سب مؤثر قوتیں شامل ہورہی تھیں۔ تاہم کوئی بتا سکتا ہے کہ پچھلے 3 ماہ میں اس اتحاد کا کہیں ذکر آیا ہو؟
تحریک انصاف نے ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے فیصلہ کن اہم معرکے اپنے بل بوتے پر لڑے اور کامیاب نہیں ہوئی۔ اگر سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے چیزیں آگے بڑھائی جاتیں تو ممکن ہے زیادہ اچھا اثر پڑتا۔ خیر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کو اس دھچکے سے نکلنے کی ضرورت ہے، ان کے کارکنوں کا مورال بہت ڈاؤن ہے، پارٹی میں نہ صرف گروپنگ ہے بلکہ کئی اہم رہنما مشکوک بھی سمجھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ کارکنوں کا فوکس تبدیل کرتے ہوئے قومی سطح کی سیاست اتحاد کے پلیٹ فارم سے کی جائے۔
’اپنے سینیئر رہنماؤں سے اِن پٹ لیں‘
یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے مرکزی رہنماؤں کو جو جیل میں قید ہیں، انہیں بھلا دیا ہے۔ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں، مگر ان سے ملاقاتیں ہوسکتی ہیں، پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کئی ماہ کی جیل کاٹ کر اب ضمانت پر ہیں۔ شدید دباؤ کے باوجود انہوں نے تحریک انصاف نہیں چھوڑی۔ ان کو آن بورڈ لینا چاہیے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، محمود الرشید ڈیڈھ برس سے اسیر ہیں، عدالت میں البتہ وہ پیش ہوتے رہتے ہیں۔ عمران خان سے تو پارٹی رہنمائی لیتی ہے اور لینی بھی چاہیے، مگر اپنے دیگر سینیئر رہنماؤں سے بھی ان ِپٹ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان سینیئر رہنماؤں کو بھی عزت اور توقیر دی جانی چاہیے، انہوں نے پارٹی اور عمران خان کی خاطر جیل کاٹی ہے اور کئی تو ابھی تک اسیر ہیں۔ جب ایسا کوئی بڑا دھچکا لگے تو ہر کوئی اپنے بزرگوں کے پاس جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اپنے ان پرانے، قابل اعتماد تجربہ کار ساتھیوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔
’سیاسی موروثیت کی نفی کی جائے‘
عمران خان ہمیشہ سے خاندانی اور موروثی سیاست کے مخالف رہے ہیں، وہ ہمیشہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی قیادت کو نشانہ بناتے تھے کہ ان سب کی سیاسی لیگیسی ان کے خاندان ہی میں آگے سفر کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کے خمیر میں اینٹی موروثیت کا عنصر شامل ہے۔ ایسے میں اگر خان صاحب کی اہلیہ محترمہ یا ان کی بہنوں کو پارٹی احتجاج یا سیاسی جدوجہد میں مرکزی کردار ملتا ہے تو یہ اس اصول کی نفی ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ خان صاحب کی بیگم بشریٰ بی بی ہوں یا ان کی ہمشیرہ علیمہ خان، ان میں ایک خامی واضح ہے۔ یہ مضبوط شخصیت کی مالک ہیں اور اسی وجہ سے خود فیصلہ کرتی ہیں، مشاورت کرنا ان کی عادت نہیں اور یہ ایک بار جو رائے قائم کرلیں، اس پر اسٹینڈ لیتی ہیں اور اسے ہی درست قرار دیتی ہیں۔ یہ ہم نے پچھلے چند ماہ میں بار بار دیکھا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان محترم خواتین کو کارکن عمران خان کی شخصیت کے عکاس کے طور پر دیکھتے ہیں، اس لیے وہ دیگر رہنماؤں کی بات سننے کے بجائے خان صاحب کی اہلیہ یا بہن صاحبہ کی رائے پر جذباتی انداز میں عمل کریں گے، خواہ آگے نقصان اٹھانا پڑے۔ ڈی چوک احتجاج کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ سب پارٹی رہنما ایک طرف اور بشریٰ بی بی دوسری طرف، بشری بی بی کی بات مانی گئی مگر درحقیقت یہ پارٹی کی ہار تھی۔
’نومور فیملی پالیٹکس‘
یہ بھی ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب کی اہلیہ اور بہنیں ہماری روایتی گھریلو سیاست سے باہر نہیں آپائیں۔ ایک دوسرے کو وہ پسند نہیں کرتیں اور اس کا اظہار بھی دھڑلے سے کر دیتی ہیں۔ ابھی اسلام آباد احتجا ج کے معاملے کو دیکھ لیں۔ اتنا بڑا سانحہ ہوا، اموات کا تعین ہو رہا ہے، کارکنان زخمی ہیں، اسپتالوں میں بھاگ دوڑ جاری ہے، پارٹی رہنما اور کارکن شل ہوئے پڑے ہیں۔ اچانک علیمہ خان کا ٹوئٹ آجاتا ہے کہ کنٹینر پر لائٹس اور ساؤنڈ کیوں بند کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔
بھئی یہ بات کہنے کا کون سا وقت تھا؟ یہ بات بعد میں ہوسکتی ہے اور آپ خود علی امین گنڈاپور یا بشریٰ بی بی سے یہ پوچھ لو۔ یہ بات ٹوئٹ کرکے دنیا کو بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ ماضی میں جیل کے اندر ان محترم خواتین کی باہمی لڑائی میڈیا کے سامنے رہی ہے۔ جس تحمل، برداشت اور گہرائی کی ضرورت کسی بڑی سیاسی جماعت کو چلانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے، بدقسمتی سے وہ بشریٰ بی بی میں ہے نہ علیمہ خان میں۔ تحریک انصاف کو آگے بڑھنا ہے تو یہ بات عمران خان کے سامنے رکھیں، انہیں قائل کریں اور سیاسی انداز میں سیاسی قیادت کے ذریعے ہی پارٹی چلائیں۔