26 نومبر کو جو کچھ ہوا اس کی روداد ہر سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر مختلف ہے۔ ابتلا کا ایسا وقت پڑا کہ سچ جاننے کا کسی کو ہوش نہیں۔ جھوٹ کے بازار میں اتنی تندی آئی کہ سچ کہیں ڈوب گیا۔ نفرت کچھ ایسی شدت سے پھیلائی گئی کہ سچ تک رسائی ختم ہو گئی۔ لوگ جھوٹ کی دلدل میں دھنستے گئے اور بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچی۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اب کسی سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا نہیں رہا، اب یہ گِدھوں کا غول بن چکا ہے جس کو ہر وقت نوچنے کے لیے لاشیں درکار ہیں۔
خوشی کی ہر خبر، ترقی کا ہر منظر اور امن کی ہر صورت انہیں زہر لگتی ہے۔ یہ نفرت فروخت کرتے ہیں، اور بہت ارزاں فروخت کرتے ہیں۔ ان کو لائکس اور ری ٹوئیٹس کی جنگ میں ابتری، تنزل، بے امنی اور بدحالی درکار ہے۔ یہ تماشا گر ملک کا تماشا بناتے ہیں، ساری دنیا سے ملک کے لیے تذلیل کے تمغے لاتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی تضحیک کا جشن مناتے ہیں۔
کتنے بدنصیب ہیں جو مادرِ وطن کا سودا کرتے ہیں، کتنے قابل نفرین ہیں جو ملک کو ڈالروں کی خاطر بیچتے ہیں اور کتنے سنگ دل ہیں جو نفرت کے اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ جو کچھ انہوں نے کیا یہ وطن کی مٹی سے غداری ہے۔ جس طرح کے فیک اعداد و شمار انہوں نے دیے یہ صریحاً ملک دشمنی ہے۔
وطن فروش پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جلتی پر پیٹرول چھڑکتا ہے اور پھر اس کا تماشا دیکھتا ہے۔ اس کام کے بدلے دنیا انہیں ڈالروں میں تولتی ہے۔ جھوٹ کی بہتات ان کا اثاثہ ہے اور وطن فروشی ان کا کاروبار ہے۔
26 نومبر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کیا کیا موشگافیاں ہوئیں، کسی نے مارے جانے والے افراد کی تعداد کو درجنوں میں بتایا، کسی نے اس تعداد کو سینکڑوں میں دکھایا، کسی نے بات ہزاروں تک پہنچا دی۔ سچ لکھنے والے سچ بتاتے رہے۔ حکومت اپنی دلیلیں دیتی رہی، اسپتال والے بتاتے رہے مگر جن کا کاروبار ہی جھوٹ ہو وہ سچ پر کیسے یقین کرتے۔ یہ بھی ہوا کہ کسی نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے کوئی تصویر بنائی اور بتایا کی ڈی چوک میں خون کے دریا بہہ گئے ۔ کسی نے فلسطینیوں کی نعشوں پر ڈی چوک لکھ کر ڈالر کمائے، کسی نے خود پر خون گرا کر مردہ ہونے کے ڈرامے کیے اور ڈالر کمائے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس نے لاشوں کی تعداد کو حقیقت سے قریب رکھا، اس کے ویوز کم آئے، جس نے لاشوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر رپورٹ کیا، وہ ڈالروں کی ریس میں آگے رہا۔ یہاں تک ہوا کہ کچھ لوگوں نے مرنے والوں کی تعداد میں اس قدر مبالغہ برتا کہ جتنے افراد فائنل کال میں بھی موجود نہیں تھے، اس سے زیادہ لاشیں گرا دیں۔ اس سنگین کھیل میں جاں بحق صرف سچائی ہوئی۔
اب یہ طے ہو چکا ہے کہ اس طرح کے جھوٹے دروغ گو سوشل میڈیا کے ساتھ پاکستان نہیں چل سکتا۔ روز روز کی بےامنی کے ساتھ پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ سے ملک میں امن نہیں ہو سکتا۔ اب فیصلہ کُن مرحلہ آ چکا ہے۔
اب ایک اٹل فیصلہ درکار ہے۔ اب ایک حتمی اعلان کا انتظار ہے۔ جس میں سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے والے کی پکڑ ہو گی۔ جس میں نفرت پھیلانے والوں کی باز پرس ہو گی۔ جس میں فیک نیوز پر سزا ہو گی۔ جس میں انتشار کی تادیب ہو گی۔
اب قانوں بننا چاہیے۔ ان خود رو زہریلے پودوں کو تلف کرنا چاہیے۔ اب قوانین پر عمل ہونا چاہیے۔ ملک کو ان انتشارویوں سے محفوظ کرنا چاہیے۔
ملک کے خلا ف پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا اعلان تو ہوگیا مگر اس ٹاسک فورس کو فعال بھی ہونا چاہیے۔ اس ٹاسک فورس کے ذریعے ایسی عدالتوں کا قیام عمل میں آنا چاہیے جو سوشل میڈیا پر جھوٹ بولنے والوں کی پکڑ کر سکیں۔ لوگوں کا فوری طور پر احتساب ہونا چاہیے۔ جرمانے ہونے چاہییں۔ سوشل میڈیا ہینڈل بند ہونے چاہییں۔
لوگوں کو گرفتار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سماج میں اس طرح لوگ ہیرو بن جاتے ہیں۔ آزادی اظہار کے نام نہاد علمبرادر بن جاتے ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا ہینڈل اور ترقی کرتے ہیں، انہیں مزید ڈالر ملتے ہیں۔ معاشرے میں ان کے رتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سچ کی آواز کو روکا جا رہا ہے۔ حق کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ جمہوریت قتل ہو رہی ہے۔ اس لیے ان کو گرفتار کرکے مدارج میں اضافے سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ دنیا کے کسی ملک کے لوگ اپنے ملک کی برائی میں وہ لذت محسوس نہیں کرتے جو پاکستانی کرتے ہیں۔ انہیں اس سماج میں برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں۔ اور جو ملک سے باہر چلے گئے وہ تو ملک پر تنقید اور ہر بات ہتک آمیز طریقے سے ڈسکس کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مانا اس میں بہت مشکلات ہیں۔ لیکن کیا دنیا کے باقی ممالک میں سب کچھ اچھا ہے۔ کیا بھارت میں مسائل نہیں ہیں؟ کیا بنگلہ دیش میں غربت نہیں ہے؟ کیا امریکا میں بے روزگاری نہیں ہے؟ کیا برطانیہ میں پولیس کے مظالم نہیں ہیں؟ سب جگہ مسائل ہیں، لیکن ان ممالک کے لوگ اپنے وطن کوگالی نہیں دیتے۔ اپنے وطن کے حوالے سے ہر وقت بدگمان نہیں رہتے۔ اپنی نفرت کا اظہار ملک سے نہیں کرتے۔ یہ نفرت کی آگ پی ٹی آئی نے لگائی، جس میں پاسپورٹ جلانے کی روایت ڈالی گئی، جس میں پرچم کو پیروں تلے روندنے کا چلن شروع کیا گیا۔ جس میں وطن کو گالی دے کر ڈالر کمانے کا فن سکھایا گیا۔ یہ قابل نفرین رسومات پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی سوغاتیں ہیں اور ان پر قابو پائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
جتنا جھوٹ 26 نومبر کے حوالے سے بولا گیا اب حقیقت سامنے آنے پر سمجھیے کہ ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی لاش عریاں پڑی ہے جسے کوئی کفنانے دفنانے کو تیار نہیں۔