دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق

منگل 3 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا میں تقریباً 73 کروڑ خواتین اپنے شوہر یا دیگر مردوں کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار بنائی جا چکی ہیں۔ یہ دنیا بھر میں 15 سال سے زیادہ عمر والی خواتین و لڑکیوں کا 30 فیصد حصہ ہے۔

یہ اعداد و شمار خواتین کے حقوق پر اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے جاری کیے ہیں جو اب دنیا کے کم از کم 161 ممالک میں اس قسم کے تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار اکٹھے کرتا ہے۔

خواتین کے مقابلے میں مردوں پر تشدد کا تناسب

تازہ ترین تحقیق کے مطابق سال 2022 میں 48,800 لڑکیوں یا خواتین کو ان کے مرد ساتھی یا خاندان کے کسی اور فرد نے قتل کیا۔ اس کے مقابلے میں قتل ہونے والے مردوں میں سے صرف 12 فیصد کو ان کا کوئی قریبی رشتہ دار قتل کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں صنفی تشدد کے مقدمات میں تیزی سے اضافہ، قانون و انصاف کمیشن کے ہوشربا انکشافات

یو این ویمن نے اس عمل کو ’خاتون کشی‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ خواتین پر ہونے والا یہ تشدد بے ترتیبی سے ہونے کی بجائے پدرشاہانہ سوچ اور نظام کی مضبوطی کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔

اس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین پر اجنبی مردوں سے کہیں زیادہ تشدد ان کے شوہر یا مرد ساتھی کرتے ہیں۔

تعصب اور تشدد کا رشتہ

یو این ویمن کے مطابق جنس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنیاد پر کیا جانے والا تعصب براہ راست خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کا سبب بنتا ہے۔ نسل، مذہب، ذات وغیرہ کی بنیاد پر ہونے والے تشدد میں بھی خواتین کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

مثال کے طور پر نوجوان لڑکیوں میں اپنے مرد ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق 19 سال کی عمر تک پہنچنے تک دنیا میں ہر 4 میں سے ایک لڑکی جسمانی، ذہنی یا جنسی تشدد کا سامنا کر چکی ہوتی ہے۔

معذور خواتین زیادہ متاثر

وہ خواتین جو کسی قسم کی معذوری میں مبتلا ہیں صحت مند خواتین کے مقابلے میں تشدد کا زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ جنوری 2023 میں شائع ہونے والی ایک میڈیکل رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں اور یورپی یونین میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں بھی یہ ثابت ہوا کہ تشدد کا خطرہ ان خواتین میں زیادہ ہے جو معذوری میں مبتلا ہیں یا جن کی آمدن کم ہے۔

نقل مکانی پر مجبور خواتین پر اضافی قہر

تعصب کے ساتھ ساتھ دنیا میں پیش آنے والے بڑے بحران جیسے موسمیاتی تبدیلی، صحت کے بحران اور انسانی حقوق کی پامالیاں بھی جنس کی بنیاد پر ہونے والی تشدد میں اضافہ کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور لوگوں کا 80 فیصد حصہ خواتین ہوتی ہیں اور ایسی تباہیوں کے نتیجے میں بھی جنسی تشدد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

سنہ 2005 میں آنے والے سمندری طوفان کترینہ کے نتیجے میں مسیسیپی جیسے علاقوں میں جنسی زیادتیوں میں 6 گنا اضافہ دیکھا گیا۔ نیوزی لینڈ کے علاقے کینٹربری میں زلزلے کے بعد گھریلو تشدد میں 53 فیصد اضافہ ہوا اور ایتھوپیا میں قحط سالی کے نتیجے میں لڑکیوں کو مویشیوں کے عوض بیچنے کا عمل بھی دیکھا جا چکا ہے۔

ہیٹی میں خواتین بنیادی ضرورت کے لیے جسم بیچنے پر مجبور

اس طریقے سے دنیا کے ایسے ممالک جہاں انسانی حقوق کا مسئلہ ہو وہاں جنسی تشدد تقریباً دگنا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہیٹی میں پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہنے والی 8 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ کم از کم ایک بار اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہو چکی ہیں۔

اس ضمن میں یہ بھی اہم ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں کم عمری کی شادی میں 4 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح دنیا میں جنسی استحصال کے لیے ہونے والی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے لوگوں میں 90 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے جنہیں مردوں کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کتنی خواتین اعضا مسخ کیے گئے

خواتین کے جنسی اعضا کو مسخ کرنے کا عمل دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ اس عمل کے خلاف عالمی مہم کے باوجود آج بھی یہ دنیا اور خاص طور پر افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے کچھ علاقوں کی خواتین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسے خواتین کے انسانی حقوق کی پامالی تصور کیا جاتا ہے اور یہ خواتین کی صحت کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

دنیا بھر میں تقریباً 23 کروڑ خواتین اور بچیاں اس تشدد سے گزر چکی ہیں 8 سال قبل کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہے۔

ایسے ممالک بھی ہیں جہاں 90 فیصد خواتین کے اعضا مسخ ہوئے

ذیلی صحارا افریقہ میں ہر 4 میں سے ایک لڑکی کے جنسی اعضا مسخ کیے جا چکے ہیں اور دنیا میں اب بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں 15 سے 49 سالہ خواتین میں سے کم از کم 90  فیصد خواتین کے اعضا مسخ کیے جا چکے ہیں۔

ٹیکنالوجی اور تشدد کا تعلق

خواتین کے خلاف ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والے تشدد کی کوئی متفقہ تعریف موجود نہیں ہے جس کے باعث عالمی سطح پر اس حوالے سے قابل موازنہ اعداد و شمار اکٹھا کرنا مشکل ہے۔ مگر اس کے باوجود مختلف ممالک اور خطوں میں کی جانے والی تحقیق سے آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کی خطرناک حد تک بلند شرح سامنے آئی ہی۔

مثال کے طور پر یورپی یونین میں ہر 10 میں سے ایک خاتون نے 15 سال کی عمر کے بعد سائبر ہراسانی کا سامنا کرنے کی اطلاع دی۔ اسی طرح تحقیق کے مطابق عرب ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی 60 فیصد، مغربی بلقان اور مشرقی یورپ میں نصف سے زائد، یوگنڈا میں 49 فیصد اور کوریا میں 85 فیصد خواتین آن لائن نفرت انگیزی اور ہراسانی کی شکایت کر چکی ہیں۔

پارلیمان اور شعبہ صحافت کا حال

عوامی زندگی میں پارلیمان اور صحافت جیسے شعبوں اور اداروں سے جڑی خواتین کو نفسیاتی تشدد، ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اکثر ان کی جنس سے منسلک ہوتا ہے۔

یہ تشدد نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کے لیے خطرہ ہے بلکہ صنفی مساوات اور جمہوری شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔

دنیا کے 5 بڑے خطوں میں کیے گئے ایک جائزے میں 82 فیصد خواتین ارکان پارلیمان نے اپنی مدت کے دوران نفسیاتی تشدد کی کسی نہ کسی شکل کا سامنا کرنے کی اطلاع دی۔ اس میں جنسی یا توہین آمیز نوعیت کی جملہ بازی، اشارے اور تصاویر، دھمکیاں اور ہجوم کی جانب سے دباؤ شامل ہیں۔

سوشل میڈیا اس قسم کے تشدد کے لیے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے جہاں تقریباً نصف (44 فیصد) خواتین قانون سازوں نے اپنی یا اپنے خاندان کے خلاف قتل، زیادتی، حملے یا اغوا کی دھمکیاں موصول ہونے کی اطلاع دے چکی ہیں۔ 65 فیصد خواتین ارکان پارلیمان نے یہ بھی کہا کہ انہیں صنفی امتیازی کلمات کا سامنا کرنا پڑا جو زیادہ تر پارلیمان میں ان کے مرد ساتھیوں کی جانب سے ادا کیے گئے۔

مزید پڑھیے: ‘مودی کے ہندوستان میں مسلمان اپنے تہوار نہیں منا سکتے’اندور میں مسلمان خواتین پر تشدد کی ویڈیو وائرل

اسی طرح ایک عالمی سروے کے مطابق 73 فیصد خواتین صحافی آن لائن تشدد کا تجربہ کر چکی ہیں۔  20 فیصد نے بتایا کہ انہیں آن لائن تشدد سے جڑے واقعات کے سبب اصل زندگی میں بھی حملوں یا بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پیپلز پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم کی بیشتر تجاویز مسترد کردیں

’ایئر کراچی‘ کا ہدف کتنے سو جہاز ہیں اور مسافروں کو کیا سہولیات دی جائیں گی؟

پاکستان کی درآمدات میں مسلسل اضافہ کون سے خطرات کا اشارہ ہے؟

27ویں آئینی ترمیم: ایک سادہ کاغذ پر لکھ دیں کہ یہ قانون ہے، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت

وی ایکسکلوسیو: آئین زندہ دستاویز، 27ویں کے بعد مزید ترامیم بھی لائی جا سکتی ہیں، مصطفیٰ کمال

ویڈیو

’ایئر کراچی‘ کا ہدف کتنے سو جہاز ہیں اور مسافروں کو کیا سہولیات دی جائیں گی؟

کیا پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں؟

چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

کالم / تجزیہ

ممدانی کی جیت اور وہ خوشی جس پر اعتراض ہوا ؟ 

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟