یہ دو سو سال پرانی بات ہے جب سر والٹر سکاٹ نے قانونی عمل کو مضبوط بنانے اور اس کے واضح اظہار کے لیے ادب شناسی کی اہمیت اجاگر کی تھی۔ جج بلاشبہ فکشن پڑھتے ہیں اور یہ حقیقت کبھی کبھار ان کے فیصلوں سے ظاہر بھی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قانونی آراء اکثر بیانیہ انداز میں پیش کی جاتی ہیں اور اپنی فطرت میں کہانی سنانے جیسا انداز رکھتی ہیں۔ سو جج وسیع ادبی خزانے سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے ناقدین موجود رہے ہیں، مثلًاجدید دور میں ایک جج پوسنر کو اس بات کا بالکل یقین نہیں کہ ادب قانون کو بامعنی اخلاقی رہنمائی فراہم کرتا ہے یا ادب اس نفسیاتی یا اخلاقی علم کا ذریعہ ہے جس کی کسی جج کو ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم ایک امریکی محقق نے اپنے مقالے کے لیے امریکہ کے ہزاروں فیصلوں کا جائزہ لیا، ان فیصلوں کی مدت کا دائرہ سو سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے۔اس نے عدالتی ریکارڈز سے وہ نمایاں حوالے اور اقتباسات اکٹھے کیے کہ جن کا تعلق ادبی تحریروں یا ادیبوں کی زندگیوں سے ہے۔ اس کے مطابق جج بنیادی طور پر ادبی حوالے اپنی دنیا کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کے تناظر میں دیتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران کئی ادیبوں کے حوالے ملتے ہیں لیکن شیکسپیئر کے بعد جس ادیب کی تحریروں کے حوالے سب سے زیادہ بار دیے گئے اس کا نام فرانز کافکا ہے۔ کافکا کا کمال یہ ہے کہ وہ داخل سے خارج تک سب چیزوں کو بالکل الگ زاویے سے دیکھتا ہے۔ اس کا یہ انداز اس کی تحریروں کو ہمہ جہت بناتا ہے اور پڑھنے والوں کے لیے ان تحاریر کی ہر قرات انسانی نفسیات اور معاملات کا کوئی نہ کوئی نیا عقدہ وا کرتی ہے۔ ججوں نے کافکا کے ادبی حوالوں کا استعمال بیوروکریسی کی حماقتوں، طرح طرح کے ٹریبیونلز اور اپیلوں کے متعلق فیصلوں میں کیا ہے۔ کچھ ججوں نے کافکا کو سمجھنے اور سمجھانے اور فیصلہ شدہ مقدمے پر کافکا کے نثر پارے کو منطبق کرنے میں کافی محنت کی ہے۔ کچھ ججوں نے بہت تخلیقی اپروچ کا مظاہرہ کیا ہے اور کافکا کو دوسرے مصنفین مثلاً جورج اورول وغیرہ کے ساتھ جوڑا ہے۔ کافکا کے پاس ایسی طاقت ہے کہ بعض فیصلوں میں اس کی دو چار سطریں ہی کافی ہوتی ہیں۔
لیکن حیرت کی بات ہے کہ کافکا امریکی عدالتی فیصلوں میں اپنی وفات کے چالیس سال بعد نمودار ہوتا ہے۔ پہلی بار اس کا تذکرہ 1924 میں ملتا ہے۔ تاہم 70 کی دہائی تک آتے آتے 400 سے زائد فیصلوں میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔ اس کی تحریروں نے صرف عام ضمیروں کو ہی نہیں جھنجوڑا بلکہ سینکڑوں ججوں نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے۔ 80 کی دہائی تک یہ تعداد کئی گنا بڑھ گئی اور اکیسویں صدی میں تو یہ رفتار مزید تیز ہو چکی ہے۔
پینسلوینیا کی ایک عدالت نے یتیموں کی عدالت (orphan court)کے ان چار فیصلوں کی تصدیق کی اور انہیں برقرار رکھا کہ جن میں دو مائوں کے حقوق کو معطل کیا گیا تھا، جسٹس نکس نے لکھا: ہم جو اپیل سننے کے لیے جج کے طور پر بیٹھے ہیں ، ہمیں ہمیشہ جذباتی ہونے سے بچنا چاہیے اور اپنے فیصلوں کے دوران انسانی فطرت اور انسانی نتائج کو الگ الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ کافکا ایک تصوراتی عدالت کے ججوں کے بارے میں لکھتا ہے: ’’کافی سادہ مقدمات یا خاص طور پر مشکل مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے، وہ اکثر بالکل غلط ہوتے ہیں، انہیں انسانی رشتوں کا کوئی درست شعور نہیں ہوتا، وہ ہمہ وقت عدالتی نظام کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ ایسے مقدمات میں انسانی فطرت کا علم ناگزیر ہے۔‘‘
برونووی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے پولیس آفیسر ونسنٹ برونو کی معطلی کو برقرار رکھنے کے مقدمے میں لوسیانا کی اعلیٰ عدالت نے نیو اورلینز سول سروس کمیشن کے دیے گئے فیصلے کو برقرار رکھا۔ برونو کو، افسران کے رخصتِ بیماری کے طریقہ کار کی پالیسی کی خلاف ورزی پر نکالا گیا تھا۔ جج گیریزن کواس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ آفیسر برونو کی معطلی کی اصل وجہ یہ نہیں بلکہ اس کی پولیس یونین کی سربراہی تھی، سو اکثریتی ججوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ مصنف کافکا یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ’’ طاقت ور لوگ بعض اوقات اصل جرم کے وجود کے بارے میں اتنے زیادہ فکرمند نہیں ہوتے کہ وہ درست قانونی عمل کی پیروی کریں۔‘‘
ایک قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران، بیلف نے عام اور غلط ترجمہ کیا (بجائے ایک تصدیق شدہ مترجم سے کروانے کے)۔ تاہم کیونکہ مدعا علیہ نے اس غلط ترجمے پر کوئی اعتراض نہ اٹھایا، اور سماعت یا اپیل میں کوئی ذکر بھی نہ کیا، سو ٹیکساس کی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مدعا علیہ اپیل میں نظر ثانی کے لیے کسی غلطی کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہے۔ فاضل جج نے کافکا کے یہ الفاظ نقل کرتے ہوئے بات جاری رکھی، “مقدمے کے ریکارڈز قدرتی طور پر۔۔۔ملزم اور اس کونسل کے لیے ناقابل رسائی تھے،۔۔۔نتیجتاً درست طور پرکوئی نہیں جانتا کہ کون سے الزامات کی بات ہو رہی ہے۔۔۔۔اس کے مطابق یہ تو بالکل اتفاق سے ہی ممکن ہے کہ اس میں کوئی متعلقہ مواد ہو گا۔۔۔ثبوت جو کہ تفتیش سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں دفاع کرنا بہت دشوار اور مشکل کام ہو گا۔‘‘ اس میں اضافہ کرتے ہوئے جسٹس یازیز نے آخر میں پابلو نرودا کی نظم “El Hombre Invisible.”کا حوالہ بھی دیا۔
عوام بمقابلہ کولئیر کے مقدمے میں نیو یار ک سپریم کورٹ کے جج میکوئیلن نے کافکا ، اورول اور کیچ کے حوالے دیے۔ اس جج نے نجی زندگی کے بارے میں بحث کے دوران یہ اقتباس سنایا۔ ‘‘اس قوم کے شہریوں میں نجی زندگی کا ایک شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ ہم نے مچھلی کے جار والے ماحول میں رہنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ہمارا حکومتی ڈھانچہ اس پر غور نہیں کرتا کہ کسی قسم کی نگرانی کرنے اور شخصی و ذاتی زندگی اور رشتوں میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک آزاد معاشرے کے آزاد شہریوں کو اپنی حکومت کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔’’
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔