ایک ماہ سے سپریم کورٹ اور پارلیمان ایک دوسرے کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں الیکشن کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ماہ رمضان سے آغاز سے قبل ہی قانون سازی کا آغاز کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس، بینچ کی تشکیل اور سوموٹو کے خلاف اپیل جیسی ترامیم کرکے عدلیہ کے پارلیمانی فیصلوں پر اثرانداز ہونے اور پارلیمان کو سپریم بنانے کے لیے کوششیں کی گئی، تاہم پارلیمنٹ کی ہر قرارداد کے جواب میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آ جاتا ہے یا بینچ تشکیل دے دیا جاتا ہے جس سے پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کو روک دیا جاتا ہے۔
جواب میں پارلیمنٹ بھی سپریم کورٹ کے کسی بھی اقدام کے خلاف قرارداد منظور کرلیتی ہے، تاہم ابھی تک اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا اور حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
صدر و وزیراعظم کو نوٹسز
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے گزشتہ روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، بینچ نے پہلی ان چیمبر ہونے والی پہلی سماعت میں صدر عارف علوی اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کیے ہیں، تاہم اب قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کی بالادستی اور چیف جسٹس کے ازخود نوٹس سے متعلق 8 رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے۔
آغا رفیع اللہ کی قرارداد
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے متعلق اور پارلیمنٹ کی بالا دستی سے متعلق قرارداد پیش کی، قرارداد میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل کو سماعت کے لیے بینچ مقرر کرنے کی مذمت کرتے ہوئے 8 رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چیف جسٹس کےاختیارات سے متعلق بل: 8 رکنی بینچ کی تشکیل مسترد کرتے ہیں، حکمران اتحاد
سپریم کورٹ کے حالیہ متنازع فیصلوں سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا ہے
رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے اور آئین سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ کی مداخلت کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے، سپریم کورٹ کے حالیہ متنازع فیصلوں سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا ہے اور جانبداری کا تاثر قائم ہوا ہے، عدالت عظمیٰ میں تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلے غیر منصفانہ ہو رہے ہیں، یہ ایوان سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو چیلنج کرنے کی درخواست کو عجلت اور اسکی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے 8 رکنی بینچ کو مسترد کرتا ہے، اس بینچ میں دو سینیئر ترین ججز کو شامل نہ کرنا بینچ کی جانبداری کو عیاں کرتا ہے، مجوزہ بل کے قانون بننے سے پہلے بنایا گیا بینچ غیر ضروری ہے لہذا اس کو تحلیل کیا جائے۔ آغا رفیع اللہ کی قرار داد کو قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔
رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔
مگر دوسری طرف بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل پر سماعت کے بعد اس بل پر عملدرآمد روک دیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔ اس بل کو پہلے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا۔ بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور 2 سینیئر ترین ججز ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق بھی مل گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر بھی فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔