فوجی مصنوعات کا بائیکاٹ: کیا تحریک انصاف نے اس کے نتائج پر غور کیا ہے؟

ہفتہ 7 دسمبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

  اب یاد نہیں کہ ٹوئٹر پر کس کی پوسٹ دیکھی تھی، شاید ڈاکٹر شہباز گل کا ٹوئٹ تھا۔ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ ترغیب دے رہے تھے کہ فوجی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ باقاعدہ سطریں لکھی تھیں ’میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔۔ نے ہر قسم کی فوجی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔‘

شہباز گل کے ٹوئٹ میں تھا کہ خالی جگہ میں اپنا نام لکھ کر اس سٹیٹمنٹ کو سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کر یں اور اس حلف کی پابندی کریں۔

  اگلے روز دیکھا کہ فیس بک پر کئی لوگوں نے اسی طرح کی پوسٹیں کر رکھی ہیں۔ میں نے فیس بک پر پوسٹ کی: میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے فوجی مصنوعات کا ہرگز بائیکاٹ نہیں کیا۔ میں اس بائیکاٹ کو مناسب بھی نہیں سمجھتا، اس کا فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔

  میری اس پوسٹ پر خاصا شور مچا۔ سینکڑوں کمنٹ آئے، بہت سے انصافین نے اختلاف کیا۔ بعض نے شائستگی سے تو چند ایک نے گالیاں اور بدتمیزی دکھائی، جس پر ایک دو فالو اپ پوسٹیں کرنا پڑیں، ان کے سکرین شاٹ لگا کر۔

  پچھلے چند دنوں میں اس بائیکاٹ مہم کو میں سوشل میڈیا پر بغور دیکھتا رہا ہوں۔ اس کی ابتدا باہر سے ہوئی۔ جو پاکستانی سیاستدان اور صحافی، اینکر حضرات آج کل امریکا اور یورپ میں مقیم ہیں، وہ اس حوالے سے زیادہ پرجوش رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹوئٹس، تحریروں کے ذریعے پاکستانی انصافین کو ترغیب دلاتے اور جوش بھرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کی تحریروں کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ پاکستان کے معروضی حالات اور زمینی حقائق سے اتنے بے بہرہ اور بے خبر تو نہیں تھے، اب باہر رہتے ہوئے کیا ہوگیا ہے؟ خودساختہ یوٹیوپیا میں کیوں مقیم ہیں؟ انہیں کچھ سمجھ آ رہا ہے اور نہ ہی کسی اور کو سمجھنے دے رہے ہیں۔

  میرے نزدیک یہ بائیکاٹ مہم تحریک انصاف کے لیے بہت ہی نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوگی۔ کوئی مانے یا نہ مانے،آخری تجزیے میں اس بائیکاٹ مہم کا تحریک انصاف کو نو مئی کی طرح کا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ رائے قائم کرنے کے پیچھے دو، تین وجوہات ہیں؛

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جن مصنوعات کے بائیکاٹ کی خواہش ظاہر کی گئی اور اس کے لیے پلاننگ کی جا رہی ہے، وہ کچھ زیادہ ہیں ہی نہیں۔ ایسے کون سے برانڈز ہیں جن کا بائیکاٹ کیا جائے؟ ڈی ایچ اے کا تو بائیکاٹ ہونے سے رہا۔ تحریک انصاف کے بیشتر رہنما، ارکان اسمبلی اور ڈونر حضرات کے گھر وہاں ہیں اور کوئی انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔ آزما کر دیکھ لیں۔ کہیں پر کوئی ایسی تحریر نہیں دیکھیں گے کہ میرا گھر ڈی ایچ اے میں تھا، مگر میں نے بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے بیچ کر کسی دوسری سوسائٹی میں مکان لے لیا۔ نہیں، یہ بیان دیکھنے کی حسرت ہی رہ جائے گی۔ باقی پھر کیا بچا؟ ایک آدھ کارن فلیکس کاڈبہ یا کوئی مکھن وغیرہ، بس۔ رہی کھاد تو وہ ڈالنا ہر ایک کی مجبوری ہے۔

  دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی بائیکاٹ مہم کبھی زیادہ کامیاب نہیں رہتی۔ ہمیشہ ابتدا میں لوگ جوش وخروش سے اعلانات کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر خاموشی سے وہ چیزیں استعمال ہونے لگتی ہے۔ ہم نے کارٹونوں کے معاملے پر سکینڈے نوئن پراڈکٹ کے بائیکاٹ کا معاملہ دیکھ لیا ہے۔ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ تو ابھی تین، چار سال پہلے کی بات ہے۔ ابھی میکڈونلڈ وغیرہ کے بائیکاٹ ہی کو دیکھ لیں۔ وقت ملے تو کسی روز، کسی بھی شہر کے ایسے ریستوران میں جھانک کر دیکھ لیں، کتنا رش ہے؟ کچھ فرق نہیں پڑا۔ عالمی سطح پر ممکن ہے فرق پڑا ہو، پاکستان میں تو معاملہ کم وبیش وہی پرانا چل رہا ہے۔

  تیسری بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو یہ بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اصولی، منطقی اور سیاسی طور پر انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کر کے وہ خود پر ایک فوج مخالف سیاسی جماعت ہونے کاٹیگ لگالیں گے۔ اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا، جبکہ نقصانات بہت سے ہیں، شدید اور دوررس۔

  اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ایک الگ چیز ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے ویسے بھی سیاستدانوں کی گرمی سردی چلتی رہتی ہے۔تاہم اگر فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ کی منظم مہم چلائی گئی تو یہ فوج سے اختلاف ہے۔ فوجی اداروں اور درحقیقت فوجی شہدا اور غازیوں کی مخالفت ہے کہ ان کاروباروں کا بڑا شیئر اس جانب جاتا ہے۔ ایسا کرنا مناسب نہیں اور تحریک انصاف جیسی بڑی اور عوامی سیاسی جماعت کو یہ پوزیشن اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستانی سیاست میں آگے بڑھنے کے کئی راستے ہیں، مگر فورسز کی مخالفت کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ ایک غیر عملی اور غیر دانشمندانہ حرکت ہوگی۔

  چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حمایت کی طرح بہت بار مخالفت بھی ایک مکمل پیکیج کی طرح ہے۔ آپ جب مخالفت میں جاتے ہیں توپہلی یا دوسری سیڑھی پر رکا نہیں جا سکتا۔ مخالفت کا سفر پھر آگے سے آگے لے جاتا ہے اور معاملات زیادہ پیچیدہ، گنجلک اور خطرناک ہوتے جاتے ہیں۔ جب آپ اداروں کی مخالفت میں ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ تک چلے جاتے ہیں، پھر آپ ان کی ہر چیز کو ڈس اون کرتے اور ایک ایک کر کے تمام نقش ونگار مٹانے لگتے ہیں۔ ایسے جو ہماری قوم کے لیے باعث توقیر ہیں۔جن روشن، اجلے آئینہ خانوں میں ہمیں اپنا چہرہ نظر آتا ہے، ہم اسے بھی دھندلا کر دیتے ہیں۔

    چند دنوں سے اس کے عملی ثبوت جگہ جگہ دیکھ رہا ہوں۔ کئی لوگوں نے جنگ ستمبر کے ہیرو میجر عزیز بھٹی کو نشان حیدر ملنے پر تنقید کی، ایک دو پوسٹیں ایسی بھی دیکھیں جن میں راشد منہاس شہید پر بھی نکتہ چینی کی گئی تھی۔ گویا اب ہم اپنے ہیروز، اپنے شہدا اور اپنے نجات دہندہ بہادروں اور دلاوروں کے جگمگاتے کرداروں پر بھی کیچڑ اچھالیں گے؟یہ تو پستی کی انتہا ہوجائے گی۔

    بہتر یہی ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اس حوالے سے مداخلت کرے، اس بائیکاٹ مہم سے فاصلہ کرے اور اپنے کارکنوں، حامیوں کو بتائے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف اداروں کی مخالفت اور اپنے ہیروز کی نفی ہرگز نہیں۔ یہ کام عمران خان کو کرنا چاہیے۔ وہ اس بارے میں ایک واضح بیان جاری کریں اور کارکنوں کا ویژن کلیئر کریں۔

خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ باہر بیٹھے فرسٹریٹڈ اینکر، جرنلسٹ اور دوسری تیسری صف کے سیاسی رہنما اپنی بھڑاس نکالنے اور اپنے پوائنٹ سکور کرنے کے چکر میں ان کی پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے پہلے ہی آسان معاملات مشکل اور سنگین بنا لیے ہیں۔جو گرہیں ہاتھ سے کھل سکتی تھیں، اب وہ اس قدر سخت اور الجھ چکی ہیں کہ دانتوں سے کھولنا بھی آسان نہیں رہا۔ اگر کچھ کسر باقی ہے تو یہ غیر حکیمانہ بائیکاٹ مہم وہ سب پوری کر دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp