مہنگائی کی شرح کم ہوگئی اور اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی کردی تاکہ کاروبار آگے بڑھے جبکہ تجارتی خسارے میں بھی 30 فی صد سے زائد کی کمی آ گئی۔ ملکی معیشت کی مجموعی صورت حال بہتر نظر آنے لگی۔ آئی ایم ایف کی امداد سے بھی کافی حد تک حوصلہ بڑھا اور دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھی اچھے اشارے ملے۔ حکومت کا اعتماد بڑھا کہ انہوں ملکی معاشی تصویر بہتر کردی اور مقامی و عالمی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا اور عوام کو روزگار ملنا شروع ہوگا۔ یہ سب اقدامات عوام کو متاثر کیوں نہیں کرپائے؟ ان کے لیے تو مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔
حکومت نے قرضے حاصل کرنے کے لیے ٹیکسوں کی ایسی بھرمار کی کہ عوام کا جینا مشکل ہو گیا۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات ٹیکس کے دائرے سے ایک بار پھر بچ نکلے اور سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر آن پڑا۔ عوام میں یہ تاثر گیا کہ حکومت بڑے تاجروں کے سامنے بے بس ہے اور ہمیشہ کی طرح قربانی غریب اور تںخواہ دار طبقہ ہی دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یہ انقلاب نہیں آئے گا
تمام حکومتی اقدامات سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں تاریخی بلندیوں کو چھونے لگیں جبکہ آمدن میں کچھ اضافہ نہیں ہوسکا۔ ایسے میں عوام کو کیا سروکار کہ خسارہ کم ہو رہا ہے یا مہنگائی کی شرح میں اضافہ رک گیا ہے۔ ان کے استعمال کی اشیا تو سستی ہونے کی بجائے مہنگی ہوگئیں۔ ان کے ماہانہ گروسری بجٹ تو دگنے ہوگئے۔ نچلے طبقے کو روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے کم ہوگئے۔ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوکریاں دستیاب ہی نہیں۔ بلکہ کئی بڑے ادارے اپنی لاگت کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اسٹاف میں کمی کرنے پر مجبور ہیں۔ لاتعداد افراد دوہری نوکریاں کرکے گھر کا خرچہ پورا کررہے ہیں۔ بے شمار والدین نے اخراجات کم کرنے کے لیے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں سے اٹھا کر سستے اسکولوں یا پھر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروا دیا۔
حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے خود کہا کہ ترقی تب ہوگی جب سرمایہ کاری ہو گی اور حکومت اب دوست ملکوں سے امداد کی بجائے سرمایہ کاری کے طلب گار ہے کیونکہ سرمایہ کاری سے ہی لوگوں کو نوکریاں ملیں گیں۔
حکومت کی انتھک کوششوں کے باوجود مقامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پچھلے چند سالوں میں مقامی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرلیا۔
مزید پڑھیے: اسموگ: ایک اور المیہ
بیرونی سرمایہ کاروں خیال ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت مقامی سرمایہ کار کو راغب کرنے میں ناکام ہے تو وہ کیسے یہاں سرمایہ کاری کی حامی بھر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں میں مفاہمتی یاداشتیں پر دستخط تو ہو رہے ہیں مگر عملی طور سرمایہ کاری ابھی دکھائی نہیں دیتی۔ شرح سود میں کمی کے بعد حکومت امید لگائے بیٹھی ہے کہ شاید سرمایہ کار پیسہ لگانا شروع کردیں۔
خسارے میں جانے والے بڑے ادارے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل وغیرہ کی نجکاری بھی ایک امتحان بنی ہوئی ہے۔ حکومت امید کررہی ہے کہ شاید کوئی بین الاقوامی کمپنی ان اداروں میں دلچسپی ظاہر کرے تاکہ انہیں منافع بخش بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں فروخت کرکے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے۔ دوسری طرف یہ بھی کوشش ہو رہی ہے کہ ملکی ایئرپورٹ بھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیے جائیں اور کچھ مزید آمدن ہوسکے۔ مگر تاحال کامیابی نہیں ہوسکی۔
اب عوام منتظر ہیں کہ معیشت کی بحالی کے ثمرات انہیں کب ملتے ہیں۔ انہیں تو فائدہ تب ہو گا جب ان کی آمدن بڑھے گی اور ان کے بچوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔
مزید پڑھیں: کیا واقعی اس حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں؟
وزیرخزانہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال کر سسٹم نہیں چل سکتا مگر بڑے کاروباری افراد کو قائل نہیں کرپائے کہ انہیں ایمانداری سے اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
آئے روز یہ دعوے تو کیے جا رہے ہیں کہ ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کرلیا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے تنخوہ دار طبقے اورعوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر یہ ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوششیں بے سود دکھائی دیتی ہیں۔