ایک مکینک سے نوبیل انعام کے حصول تک کا سفرکرنے والے حوزے ساراماگو پرتگال سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں 1998میں ادب کے سب سے بڑے اعزاز نوبیل پرائز سے نوازا گیا اور مشکل ترین بچپن اور جوانی گزارنے کے باوجود، ان کے بقول، نوبیل انعام نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ سارا ماگو پرتگال کے علاقے مرکزی ریباٹیجو میں ایک معمولی دیہاتی مزدور گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی عمر 2برس تھی تو ان کا خاندان لزبن منتقل ہوگیا، جہاں ان کے والد نے پولیس کے محکمے میں ملازمت اختیار کرلی۔ ساراماگو خاندان کی مشکلات نے انہیں اوائل عمری میں ہی مجبور کردیا کہ وہ معمول کے ہائی اسکول سے ووکیشنل اسکول منتقل ہو جائیں۔ انہوں نے مختلف ملازمتیں کیں، جن میں مکینک کا کام بھی شامل تھا۔ ان کی زندگی انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ان کے بارے میں ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے شاہکار ناول 50سال کی عمر کے بعد تخلیق کیے۔ وہ اپنی پہلی کتاب کو اپنے کام کی فہرست میں شامل ہی نہیں کرتے تھے۔ یہ کتاب ان کا ناول تھاجو 1947میں شائع ہوا، جب ان کی عمر محض 25برس تھی۔ ان کا اگلا ادبی پڑاؤ 1966میں نظموں کے مجموعے کی اشاعت تھا۔ 1980تک انہوں نے مزید 9کتابیں شائع کیں، جن میں 2شعری مجموعے، 2 سرگزشتیں، 2سیاسی مضامین کے مجموعے، ایک ناول ایک افسانوں کا مجموعہ اور ایک ڈرامہ شامل ہیں، لیکن کسی کو خاطر خواہ پزیرائی نصیب نہ ہوسکی۔
1980میں Raised Up from the Ground کی اشاعت کے ساتھ انہوں نے ایک ناول نگار کے طور پر اپنی الگ پہچان بنا لی۔ یہ ناول پرتگال کے الینٹیجو علاقے کے زرعی مزدوروں کی 3نسلوں کی کتھا ہے، اسے بہت زیادہ پزیرائی ملی۔ 1991 میں The Gospel According to Jesus Christ شائع ہوا جسے پرتگالی مصنفین کی ایسوسی ایشن کی طرف سے ایوارڈ ملا۔ تاہم پرتگالی حکومت نے کیتھولک چرچ کے دباؤ میں آکراس ناول پر پابندی لگا دی۔ اس تنازعے کے بعد انہوں نے اور ان کی بیوی نے لزبن چھوڑ دیا۔ وہ اسپین کے کنارے پر موجود جزیروں میں لانزارہٹے جزیرے پر منتقل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے اپنی سالی کے گھر کے ساتھ نیا گھر بنایا۔ اس کے بعد ان کی کچھ مزید کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں سے ’’اندھا پن‘‘ کو بے پناہ مقبولیت ملی۔
ساراماگو کا بچپن بہت دلچسپ تھا ان کے بقول ’میں اس وقت 18برس کا تھا، جب اپنے ہم عمروں کو بتایا کرتا کہ میں مصنف بننا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک میں نے بہت جذباتی اور ڈرامائی نظمیں کہہ رکھی تھیں، جیسا کہ نوجوان اس عمر میں لکھتے ہیں۔ شاید مستقبل میں میرے مصنف بننے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ مجھے بچپن سے پڑھنے کا شوق تھا۔‘
انہوں نے مصنف بننے سے قبل مکینک، ٹیکنیکل ڈیزائنر، مدیر اور صحافی کے طور پر کام کیا۔ لیکن وہ ان کاموں کو اپنے ادبی کام کے حوالے سے کوئی خاص مددگار نہیں مانتے۔ ساراماگو کے بقول ’میرا نہیں خیال کہ مختلف پیشوں نے میرے مصنف بننے میں کوئی مدد کی ہو۔ انہوں نے کچھ دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ وہ انسان بننے میں یقیناً میری مدد کی جو میں اب ہوں، جن میں سے کچھ کی نشاندہی کی جا سکتی ہے اور باقی سے میں ناواقف ہوں۔ کون جانتا تھا کہ وہ بچہ جو دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کا بہائو دیکھ رہا تھا، ایک دن مصنف بن جائے گا، یہ جانے بغیر کہ کیوں۔‘
ان کا ایک جملہ کافی مقبول ہوا، ’مجھے یقین ہے کہ مصنفین اس لیے لکھتے ہیں کہ وہ مرنا نہیں چاہتے۔ تاہم میں کہوں گا کہ ہم جس کتاب پراصرار کرتے ہیں، وہ کئی کتابوں میں ایک یا ایک کتاب میں سب، بقا کی کتاب ہے۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ ہم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں: کچھ بھی باقی رہنے والا نہیں ہے۔‘
سارا ماگو کی زندگی پرلطف اور بھرپور تھی اور اس کی کچھ وجوہات تھیں۔ یہ کیا تھیں؟ انہی کی زبانی سنیے’میں ایک ایسا شخص ہوں جو زندگی کو پیچیدہ نہیں بناتا۔ میرے ساتھ اچھا ہوا یا برا ہوا، میں نے ہمیشہ چیزوں کو ڈرامائی بنائے بغیر زندگی گزاری۔ سادہ انداز میں یوں کہیے کہ میں لمحوں میں جیتا ہوں۔ بلاشبہ مجھے اداسی محسوس ہوتی ہے، میں اسے محسوس کرتا ہوں لیکن اداس نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور انداز سے کہوں تو یہ ہے کہ میں دلچسپ ہونے کے طریقے نہیں ڈھونڈتا۔‘
ساراماگوسمیت کئی نوبیل انعام یافتگان کی زندگی کے مطالعے کے دوران یہ دیکھا کہ وہ اپنی تخلیقی کام کے بارے میں خاصے ذمہ دار ہوتے ہیں اورروزانہ کے اوقات کار مقرر کر رکھے ہوتے ہیں یا کام کی مقدار کا کوئی ہدف ضرور رکھتے ہیں۔ ساراماگو کہتے ہیں’جب میں کسی ایسے کام میں پڑ اہوتا ہوں جس میں تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایک ناول لکھنے کے دوران، تو میں روزانہ لکھتا ہوں۔ بلاشبہ اس میں ہر طرح کی مداخلتیں شامل ہوتی ہیں، گھر یا سفر کی، لیکن اس کے علاوہ میں مستقل لکھتا ہوں، میں بہت منظم ہوں۔ میں ایک دن میں خاص طے شدہ گھنٹوں تک خود کو کام کے لیے مجبور نہیں کرتا، لیکن مجھے ہر روز ایک خاص مقدار میں تحریر چاہیے ہوتی ہے، جو عام طور پر 2صفحات پر مشتمل ہوتی ہے۔ آج صبح میں نے نئے ناول کے 2صفحات لکھے، اور کل میں 2مزید لکھوں گا۔ آپ سوچیں گے 2صفحات تو کافی نہیں ہیں، لیکن مجھے اور کام بھی کرنے چاہییں۔۔۔خطوط وغیرہ؛ اور 2صفحات روزانہ کا مطلب ہے سال میں 800صفحات تقریباً۔‘‘
کانٹ چھانٹ کے عمل کے بارے میں ساراماگو کہتے ہیں’جب میں کسی کام کے اختتام تک پہنچ جاتا ہوں تو اس سب کو پڑھتا ہوں۔ عام طور پر اس موقع پر کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ چھوٹی تبدیلیاں جو انداز یا خاص تفصیلات سے متعلق ہوتی ہیں یا متن کو زیادہ درست بنانے کے لیے، لیکن زیادہ بڑی تبدیلیاں کبھی نہیں کرنی پڑیں۔ میرا 90فیصد کام وہ ہے جو میں نے پہلی بار لکھا اور اسے اسی طرح برقرار رکھا۔ میں کچھ دوسرے مصنفین کی طرح نہیں ہوں کہ کسی کہانی کا 20صفحات کا خلاصہ لکھوں اور اسے پہلے 80 اور پھر 250 صفحات تک پھیلاؤں۔ میں ایسا نہیں کرتا، میری کتابیں کتابوں کے طور پرشروع ہوتی اور ابھرتی ہیں۔‘
نوبیل انعام ملنے کے بعد ان کی شخصیت اور کام کے انداز میں آنے والی کسی ممکنہ تبدیلی کے بارے میں جب ساراماگو سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’میں اب بھی وہی ہوں جو نوبیل پرائز لینے سے پہلے تھا۔ میں اسی تسلسل سے کام کرتا ہوں، میں نے اپنی عادتیں تبدیل نہیں کیں، میرے وہی دوست ہیں جو پہلے تھے، میں اپنی جگہ سے بطور لکھاری یا شہری کے کہیں اور نہیں گیا۔ نوبیل نے مجھے اچھا یا برا، کچھ مختلف آدمی نہیں بنایا۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔