محمد رضوان کی ’سُست‘ اننگز، کوئی نئی بات ہو تو بتائیے!

بدھ 11 دسمبر 2024
author image

فہیم پٹیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ روز جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹی20 میچ میں پاکستان کو ملی غیر متوقع شکست پر خوب واویلا مچا ہوا ہے، درحقیقت یہ شور اور غصہ شکست سے زیادہ کپتان محمد رضوان کی ’سست‘ اننگز پر ہے جس کے سبب پاکستان کو میچ میں 11 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن جاننے والے جانتے ہوں گے کہ رضوان نے پہلی مرتبہ اس طرح کی اننگز نہیں کھیلی، یہ ایک ایسی روایت ہے جس پر پردہ اب ہٹنا شروع ہوا ہے۔

جب میں غیر متوقع شکست کہہ رہا ہوں تو اس کی وجہ ہے۔ پاکستانی گیند بازوں نے میچ کا آغاز شاندار کیا، مگر جب 14.3 اوورز میں 137 رنز پر جنوبی افریقہ کے 7 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے تو لگا بات شاید 150 تک بھی رک جائے، مگر جیورج لنڈے نے جو جھاڑو چلایا، اس کے بعد بات 183 رنز پر جاکر رکی۔

پاکستانی اننگز کا آغاز ہوا تو بابر اعظم تیسرے ہی اوور میں صفر پر پویلین لوٹ گئے۔ اس کے بعد صائم ایوب 15 گیندوں پر 31 رنز کی جارح مزاج اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے تو رن 8.85 تھا اور میچ جیتنے کی امید اب بھی باقی تھی۔ اگرچہ رضوان اس وقت بھی 21 گیندوں پر 19 رنز ہی بناسکے تھے مگر خیال تھا کہ تجربہ کار کھلاڑی اگر وکٹ پر رہے تو رن ریٹ کو تیز کرسکتا ہے، مگر پھر سب کچھ تیزی سے خراب ہوتا رہا اور رضوان آخری اوور کی دوسری گیند پر 62 گیندوں پر 74 رنز بناکر آؤٹ ہوئے جس کے بعد پاکستان کو 11 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مجھے رضوان کی اس سُست اننگز سے اتنا مسئلہ نہیں ہے، میرا اعتراض یہ ہے کہ جب آپ نے 120 گیندوں میں سے آدھے سے زائد گیندوں کا سامنا کر ہی لیا ہے تو پھر میچ جتوانا آپ پر لازم ہوچکا ہے۔ آخری اوور میں آؤٹ ہوکر یہ ثابت کروانے کی کوشش کرنا ٹھیک نہیں کہ اگر یہ 74 رنز بھی نہ بنتے تو بڑی شکست ہوجاتی۔ سرکار بڑی شکست قبول ہے، مگر یہ مفاد پرستی اور ذاتی ریکارڈز کی ہوس برداشت نہیں۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ایسی کئی اننگز ہیں جب بابر اعظم اور محمد رضوان پر مشتمل کامیاب اوپننگ جوڑی 10 یا اس سے زائد اوورز کھیلتی رہی ہے اور پاکستان کو ان میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جب انہیں ٹربو گیئر لگانے کی ضرورت ہوتی تھی وہ عین اسی موقع پر ہاتھ کھڑے کرکے پویلین لوٹ جایا کرتے تھے۔

اس کی ایک مثال 2021 میں کھیلے گئے ٹی20 ورلڈ کپ سیمی فائنل کی ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلے گئے اس میچ میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ بابر اور رضوان نے پہلی وکٹ کے لیے 71 رنز کی شراکت داری قائم کی جبکہ محمد رضوان 18ویں اوور میں پویلین کی جانب لوٹے۔ اب اگر بات کو آگے نہ بڑھایا جائے تو سب ہی کہیں گے کہ واہ، اہم میچ میں زبردست بیٹنگ کرلی۔ مگر اب تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہیں۔

اس میچ میں بابر اعظم نے 114 کے اسٹرائیک ریٹ سے 34 گیندوں پر 39 رنز بنائے جبکہ رضوان نے 128 کے اسٹرائیک ریٹ سے 52 گیندوں پر 67 رنز بنائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہم ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ کی بات کررہے ہیں۔ جب 18ویں اوور میں رضوان آؤٹ ہوئے تو پاکستان کا اسکور 143 رنز تھا، یعنی پاکستان کے پاس اب 16 گیندیں باقی تھیں اور اگر اس موقع پر فخر زمان 171 کے اسٹرائیک ریٹ سے 32 گیندوں پر 55 رنز نہیں بناتے تو ہم کبھی 176 رنز تک نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن آج بھی اس میچ کی شکست کا ذمہ دار شاہین شاہ آفریدی کے ایک اوور اور حسن عل کے کیچ کو قرار دیا جاتا ہے، کوئی بابر اور رضوان کی اس خاموش کارروائی پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔

حالانکہ بات اب بھی یہی ہے کہ جب رضوان نے اہم ترین سیمی فائنل میں 18 اوورز تک بیٹنگ کر ہی لی تھی تو پھر اننگز کو اچھے انداز میں فنش بھی کرتے، عین موقع پر دھوکا دینے کی عادت کب اور کیسے جائے گی؟

کل کے میچ سے متعلق  بھی کچھ لوگوں کو یہ کہتے بڑھا اور سنا کہ اگر رضوان 74 رنز نہ بناتے تو ہمارا کیا حال ہوتا؟ کرکٹ پر نظر رکھنے والے اہم لوگوں کو بھی دیکھا جو کہہ رہے ہیں کہ رضوان پر تنقید جائز نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جب وہ آؤٹ ہوئے تو ٹیم کو 15 رنز درکار تھے۔ جب ایک اوپننگ بلے باز 20 میں سے 19.1 اوور بیٹنگ کرچکا ہو اور وہ اس دور میں بھی 5 گیندوں پر 15 رنز نہ بناسکے تو پھر وہ کیا کرسکتا ہے؟

اچھا چلیں کبھی رنز نہیں بھی بنتے، مگر کوئی کوشش نظر آئی؟ اوّل تو انہیں میچ یہاں تک آنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا، اگر وہ 15ویں اوور کے بعد رفتار پکڑلیتے تو میچ پہلے ہی ختم ہوجاتا اور بات یہاں تک پہنچتی ہی نہیں۔

ٹی20 کرکٹ کیسے کھیلی جاتی ہے اور کھیلنی چاہیے ہمیں یہ سب کچھ ڈیوڈ ملر اور جیورج لنڈے سے سیکھنا چاہیے۔ جب ملر بیٹنگ کے لیے آئے تو جنوبی افریقہ کے 28 رنز پر 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے مگر ملر جھکنے یا ڈرنے کے بجائے حملہ آور ہی ہوگئے اور 40 گیندوں پر 82 رنز کی برق رفتار اننگز کھیل لی۔ خوش قسمتی سے پاکستان نے اچھے موقع پر ان پر قابو پالیا لیکن جو نقصان میں تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی وہ لنڈے نے پوری کردی جنہوں نے 24 گیندوں پر 48 رنز جڑ دیے۔

اب تصور کریں کہ 28 رنز پر 3 کھلاڑی جنوبی افریقہ کے بجائے پاکستان کے آؤٹ ہوئے ہوتے تو کیا ہم 125 کے قریب بھی پہنچ پاتے۔ بات اب بھی یہی ہے کہ جیت یا ہار اہم ہے، مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم کتنے بڑے دل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ٹی20 کرکٹ کھیلنے کا رنگ اور ڈھنگ اب بالکل بدل چکا ہے، بابر اعظم اگر کنگ ہیں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ ہر حال میں ٹی20 ٹیم کا حصہ ہوں گے یا وہ اوپننگ ہی کریں گے۔ ہمیں نئی ٹیم تیار کرنی ہوگی، اس ٹیم کو مختصر طرز کی کرکٹ کھیلنا سیکھانا ہوگا، باقی ٹیمیں کس طرح مقابلہ کررہی ہیں اسے جانچنا ہوگا۔

ابھی پچھلے ماہ کی ہی بات ہے جب بھارت کی بی ٹیم نے جنوبی افریقہ میں ٹی20 سیریز کھیلی اور 4 میچوں کی سیریز 1-3 سے جیت لی۔ بھارت نے جن 3 مقابلوں میں کامیابی حاصل کی ان میں بالترتب 202، 219 اور 283 رنز بنائے تھے۔ مزید کچھ کہنے کے لیے رہ نہیں گیا ورنہ ضرور کہتا، بس ایک بات یہ ضرور کہ دل بڑے کرنے ہوں گے، ذاتی ریکارڈز کے پیچھے بھاگیں گے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp