جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ بات چیت کی ٹیبل سجنے لگی ہے، بلاول کی شیروانی تیار ہونے والی ہے، نیشنل گورنمنٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔۔
ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف 26 ویں آئینی ترمیم کا نہیں بلکہ مسائل اور بھی ہیں۔ مسئلہ 8 فروری 2024 کے انتخابات کی شفافیت کا بھی ہے۔ اگر ان مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بارڈرز پر بھی مسائل رہیں گے۔ ملک میں کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھی ڈیویلپمنٹ یہ ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
جب فوج کے اندر گروپ بندی ہو تو کام کیسے چلے گا؟
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف آئی ایس آئی کے سابق چیف کا ملٹری ٹرائل ہو رہا ہے، دوسری طرف آئی ایس پی آر کے ذریعہ قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ ایسا نہیں ہوا کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ قوتیں ایسی ہیں فوج کو فوج سے، فوج کو سویلینز سے اور سویلینز کو سویلینز سے لڑوانا چاہتی ہیں۔ وہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ ہم ترقی کریں لیکن ہمیں تو سوچنا چاہیے، جب فوج کے اندر گروہ بندی ہو، ایک گروپ ایک کو دوسرا دوسری سیاسی قوت کو سپورٹ کرے گا تو کام کیسے چلے گا؟
26 نومبر، پی ٹی آئی کی کامیابی اور حکومت کی ناکامی ہے
نو مئی اور 26 نومبر کی تحقیات ہونی چاہئیں۔ 24 نومبر کو پنجاب بند رہا، اسلام آباد کو لوگوں نے کنٹینرستان کا نام دیا۔ بظاہر لگا کہ پی ٹی آئی ناکام ہو گئی لیکن اصل میں یہاں حکومت ناکام ہوئی۔کیوں کہ پہلے جس بات چیت کے لیے کوئی آمادہ نہیں تھا، اس بات چیت کی ٹیبل سجنے لگی ہے، بلاول کی شیروانی تیار ہونے والی ہے، نیشنل گورنمنٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں کہ ایک قوت ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس نے 8 فروری 2024 کو ایک جماعت کو ووٹ دیے۔ آپ نے اسے اقتدار نہیں سونپا اور وہ قوت اب سڑکوں پر نظر آرہی ہے۔ اور یہ 26 نومبر کی ہی کڑی ہے۔
عمران خان کے پاس جو تھا وہ شوکت خانم اور تعلیمی اداروں پر لگا چکا
جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کی حد تک دیکھا جائے تو عمران خان اس لحاظ سے صادق و امین نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس جتنا سرمایہ تھا یا تو اس نے شوکت خانم پر لگا دیا یا پھر تعلیم و تدریس کے اداروں میں لگا دیا۔ ایک گھر بنایا جس کی زمین تو زیادہ ہے پر گھر درمیانہ سا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بات جو مجھے نظر آئی وہ یہ کہ کروڑوں روپوں کی ایک چیز آپ چند لاکھ روپے میں اٹھا رہے ہیں اور اس بندے کے پاس وہ چند لاکھ روپے بھی نہیں ہیں۔ وہ چیز لی جاتی ہے، اس کو بیچا جاتا ہے اور بیچ کر وہ قیمت ادا کرتا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ اس کے پاس ناجائز پیسہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2016 سے پی ٹی آئی کو خیر باد کہا ہے جس کے بعد خان صاحب سے کبھی بات ہوئی نہ ہی ملاقات لیکن پی ٹی آئی کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں دوبارہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کروں لیکن میں اس وقت ایک دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک ہوں۔